’گِلہ عورتیں کرتی ہیں‘، چیف جسٹس پشاور ہائیکورٹ کا ایمل ولی خان کو طعنہ
پشاور ہائیکورٹ میں آج اے این پی رہنما ایمل ولی خان کے خلاف توہین عدالت کیس کی سماعت ہوئی، اس دوران کافی ہنگامہ آرائی دیکھنے کو ملی اور چیف جسٹس اور ایمل ولی خان کے درمیان دلچسپ مکالمہ بھی ہوا۔
سماعت شروع ہوئی تو جسٹس ابراہیم خان نے کہا کہ چیف جسٹس کی کردار کشی کی گئی ہے، ایمل ولی کون ہے، کیا وہ عدالت حاضر ہوا ہے؟
چیف جسٹس نے سوشل میڈیا پر چلنے والی ویڈیو سکرین پر چلانے کی ہدایت کی۔
ویڈیو دیکھنے کے بعد انہوں نے کہا کہ میں اپنی ذات کی فکر نہیں کتا، اگر یہ پٹھان ہے تو میں بھی پٹھان ہوں، یہ عدالت کے تقدس کا معاملہ ہے، میں انہیں کچھ نہیں کہتا میرا چھوٹا بھائی ہے، لیکن یہ ابراہیم خان کا مسئلہ نہیں عدالت کا مسئلہ ہے۔
وکیل درخواستگزار نے کہا کہ جو ماحول بنا ہے چیف جسٹس کو ہیرو بنانے کی کوشش کی جارہی ہے۔
جس پر چیف جسٹس ابراہیم خان نے کہا کہ 15 اپریل کو میں ریٹائر ہونے جارہا ہوں، کسی پارٹی میں شمولیت اختیار نہیں کررہا۔
چیف جسٹس نے ایمل ولی کو سامنے آنے کی ہدایت کی اور کہا کہ جس وقت میں جج تھا آپ اس وقت بھی چھوٹے تھے۔
جس پر ایمل ولی خان نے کہا کہ میں معافی چاہتا ہوں ، لیکن یہ بات زدعام ہے، میں نے صرف گلہ کیا ہے۔
چیف جسٹس پشاور ہائیکورٹ نے ریمارکس دیے کہ گلہ مرد نہیں کرتے عورتیں کرتی ہیں۔
چیف جسٹس نے کہا کہ جو غلط فہمی ہے وہ ختم کرنا چاہتا ہوں، 31 سال سے روزے میں ہوں کبھی کسی سے پانی نہیں پیا۔
چیف جسٹس نے کہا کہ دو مرتبہ ایمل ولی کی رٹ لگی ہے ان کے وکیل نے سماعت ملتوی کی ہے۔
جس پر ایمل ولی نے چیف جسٹس کو جواب دیا کہ آپ میرا میڈیا ٹرائل کررہے ہیں۔
چیف جسٹس نے کہا کہ میں اس کیس کو لارجر بینچ کو بھیجتا ہوں، میں نے آپ کے کزن کے کیس میں میرٹ پر فیصلہ کیا ہے۔
جس پر ایمل ولی خان نے کہا کہ ہم آپ سے خوش ہیں آپ کے ہر فیصلے کا احترام کرتے ہیں، باچا خان اور ولی خان پر غداری کیس تھے وہ بھی نکال لیں۔
چیف جسٹس نے ایمل ولی کو کہا کہ اگر آپ ایڈونس ووٹ لینا چاہتے ہیں وہ بھی آپ کو دے دوں گا۔
ایمل ولی خان نے کہا کہ میں نے عدالت کی توہین نہیں کی ہے، میں نے گلہ کیا ہے۔
چیف جسٹس نے کہا کہ آپ کو برخوردار کہا ہے، اپنے وکلاء سے پوچھ لیں یہ انسداد دہشت گردی کا کیس ہے، آپ کے ذہین میں بلکل نہ آئے کہ جانبداری کررہے ہیں، آپ نے جو اسٹیٹمنٹ عدالت میں دیا ہے،باہر اس کی تردید کردیں۔
اس کے بعد چیف جسٹس پشاور ہائیکورٹ نے رٹ نمٹادی۔
Comments are closed on this story.