سائفر کیس: سپریم کورٹ نے بانی چیئرمین پی ٹی آئی کی رہائی کی روبکار جاری کردی
سپریم کورٹ نے بانی پی ٹی آئی کی رہائی کا روبکار جاری کردیا۔
سپریم کورٹ نے آفیشل سیکرٹ ایکٹ میں بانی پی ٹی آئی کی رہائی کا روبکار جاری کردیا، بانی چئیرمین پی ٹی آئی کی جانب سے ضمانتی مچلکے جمع کرادیئے گئے ہیں۔
سپریم کورٹ نے سائفر کیس میں بانی چئیر مین کی ضمانت منظور کی تھی، اور بانی چئیرمین پی ٹی آئی کے وکیل خالد یوسف چوہدری نے ضمانتی مچلکے جمع کروائے تھے۔
واضح رہے کہ سپریم کورٹ نے 22 دسمبر کو سائفر کیس میں بانی تحریک انصاف عمران خان اور وائس چیئرمین پی ٹی آئی شاہ محمود قریشی کی درخواست ضمانت منظور کی تھی۔
مزید پڑھیں:
سائفر کیس میں ضمانت: عمران خان کی رہائی کے کتنے امکانات ہیں؟
عمران، قریشی کی رہائی اصلی انتخابات کو یقینی بنائے گی، ضمانت کا تفصیلی فیصلہ
سپریم کورٹ کے تین رکنی بینچ نے 10، 10 لاکھ روپے کے مچلکوں کے عوض عمران خان اور شاہ محمود قریشی کی ضمانت منظور کی تھی۔
سپریم کورٹ کا تحریری فیصلہ
سپریم کورٹ کے جسٹس منصور علی شاہ نے 4 صفحات پر مشتمل ضمانت کا فیصلہ تحریر کیا تھا، جس میں کہا گیا کہ خفیہ معلومات کو غلط انداز میں پھیلانے کی سزا دو سال ہے، آفیشل سیکرٹ ایکٹ کی جن شقوں کا اطلاق سائفر کیس میں کیا گیا وہ قابل ضمانت ہیں۔
سپریم کورٹ نے اپنے فیصلے میں کہا کہ عمران خان نے دوسرے ملک کے فائدے کے لیے سائفر کو پبلک کیا ایسے کوئی شواہد نہیں ملے، فیصلے میں دی گئی آبزویشنز ٹرائل کو متاثر نہیں کریں گی، بانی پی ٹی آئی عمران خان ضمانت کا غلط استعمال کریں تو ٹرائل کورٹ اسے منسوخ کر سکتی ہے۔
عدالت نے تحریری فیصلے میں مزید کہا کہ آفیشل سیکرٹ ایکٹ کے سیکشن 5(3) بی کے جرم کا ارتکاب ہونے کے شواہد نہیں، ملزمان کے آفیشل سیکرٹ ایکٹ کے جرم کے ارتکاب کے لیے مزید انکوائری کے حوالے مناسب شواہد ہیں، مزید تحقیقات کا فیصلہ ٹرائل کورٹ شواہد کا جائزہ لینے کے بعد ہی کر سکتی ہے۔
فیصلے میں کہا گیا کہ آفیشل سیکرٹ ایکٹ کی شق (3) 5 بی کے تحت سزا 14 سال ہے جو کہ ناقابل ضمانت ہے، دستیاب مواد سے یہ ثابت نہیں ہوتا کہ بانی چیئرمین نے سائفر کسی غیر ملک طاقت کو فائدہ دینے کے لیے استعمال کیا، یقین کرنے کے لیے ایسی معقول وجہ نہیں ہے کہ بانی چیئرمین نے آفیشل سکریٹ ایکٹ کی شق پانچ کی ذیلی شق تین بی کے جرم کا ارتکاب کیا یا نہیں یہ بات حتمی طور پر ٹرائل کورٹ ہی طے کری گی۔
مزید پڑھیں:
سپریم کورٹ کے فیصلے میں مزید کہا گیا کہ ہائیکورٹ کا عمران خان اور شاہ محمود قریشی کو ضمانت نہ دینا دستیاب مواد کے خلاف ہے ہائیکورٹ نے ضمانت نہ دے کر حقائق کے برخلاف رائے دی۔
جسٹس اطہر من اللہ کا 5 صفحات پر مشتمل اضافی نوٹ
سپریم کورٹ کے جج جسٹس اطہر من اللہ نے فیصلے سے اتفاق کرتے ہوئے 5 صفحات پر مشتمل علیحدہ اضافی نوٹ بھی لکھا تھا۔
مزید پڑھیں:
سائفر کیس: پراسیکیوٹر کو آئندہ سماعت پر عمومی یا خصوصی حکومتی حکم نامہ پیش کرنے کا حکم
جسٹس اطہر من اللہ نے فیصلے سے اتفاق کرتے ہوئے اپنے اضافی نوٹ میں تحریر کیا کہ درخواست گزار معاشرے کے خلاف جرم میں ملوث نہیں، ملزمان کی گرفتاری کا کوئی فائدہ نہیں ہو سکتا، پورا ٹرائل دستاویزی شواہد پر منحصر ہے، ملزمان کی انتخابات کے دوران رہائی اصلی انتخابات کو یقینی بنائیں گے، کیس میں ایسے حالات نہیں کہ ضمانت کو مسترد کیا جائے۔
جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ عوام کی خواہش کا اظہار انتخابی عمل سے ہی ممکن ہے، عوام کا حق رائے دہی استعمال کرنا آئینی حق ہے جس کے لیے ہر سیاسی جماعت کے امیدوار کو بلا خوف و خطر یکساں مواقع ملنے چاہئیں، اصل انتخابات وہی ہوتے ہیں جس میں ووٹر آزادانہ حق رائے دہی استعمال کرسکے، سیاسی رائے کی بنیاد پر اصل انتخابات پر سمجھوتہ کرنے پر انتخابات کا درجہ گر جاتا ہے، ہر امیدوار اور سیاسی جماعت کا حق ہے کہ وہ بشمول پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا اپنے شہریوں تک پہنچ سکے۔
جسٹس اطہر من اللہ نے اپنے اضافی نوٹ میں مزید کہا کہ جب ہر سیاسی جماعت کو یکساں طور پر مواقع نہ ملیں تو یہ بنیادی حقوق کی خلاف ورزی ہے، درخواست گزاران پر ایسے سنگین الزامات نہیں ہیں جس کے معاشرے کو خطرہ ہو، معاشرے کیلئے خطرے کا سبب بننے والے جرائم میں زیادتی، قتل عام اور بچوں کے ساتھ بد سلوکی شامل ہیں، حقیقی انتخابات کے لیے درخواست گزاران کو ضمانت ملنا ضروری ہے۔
Comments are closed on this story.