غریب کیا کھائے، انڈوں کو بھی پَر لگ گئے
کراچی میں جتنی تیزی سے سردی بڑھ رہی ہے اس سے زیادہ تیزی سے بعض اشیائے خور و نوش کی قیمتیں بڑھ رہی ہیں۔ ان میں انڈے نمایاں ہیں۔ اب بیشتر گھرانوں کے لیے ناشتے میں انڈے جیسا عمومی آئٹم شامل کرنا بھی آسان نہیں رہا۔
ایک ہفتے کے دوران ایک درجن انڈوں کے نرخ 13 روپے سے زیادہ بڑھ چکے ہیں۔ دکان دار انڈے کی قیمت انتظامیہ کے طے کردہ نرخوں سے زیادہ وصول کر رہے ہیں۔
اس وقت کراچی میں ایک انڈا 40 روپے کا فروخت ہو رہا ہے۔ ہوٹل والے ایک انڈے کا آملیٹ 50 روپے اور بعض صورتوں میں 60 روپے میں فروخت کر رہے ہیں۔
عوام نے انڈوں سمیت تمام اہم اشیائے خور و نوش کی زائد قیمتیں وصول کیے جانے کی مذمت کرتے ہوئے اسے حکومت کی ناکامی سے تعبیر کیا ہے۔
دکان داروں کا کہنا ہے کہ وہ انڈوں سمیت تمام اشیا بلند نرخوں پر بیچنے پر مجبور ہیں۔ قیمتوں میں اس غیر معمولی اضافے کے لیے انہوں نے تھوک فروشوں کو موردِ الزام ٹھہرایا ہے۔
چند ماہ قبل کراچی میں ایک درجن انڈوں کی خوردہ قیمت 280 سے 300 روپے کے درمیان تھی۔ اب ایک درجن انڈے کے 400 روپے وصول کیے جارہے ہیں۔
بیشترغریب گھرانے مہنگائی کے ہاتھوں ہاتھ تنگ ہوجانے کے باعث اب یک مُشت ایک درجن انڈے خریدنے کے قابل نہیں رہے۔ دو یا تین انڈے خریدنے پر دکان دار درجن کے نرخ سے زیادہ وصولی کرتے ہیں۔ یہی سبب ہے کہ ہوٹلوں پر انڈے اور پراٹھے کا ناشتہ کرنے والوں کو بھی مشکلات کا سامنا ہے۔
تھوک فروشوں کا کہنا ہے کہ انڈوں اور مرغی کے گوشت کی قیمت میں اضافے کا بنیادی سبب یہ ہے کہ چکن فیڈ بہت مہنگی ہوگئی ہے۔ اس حوالے سے انتظامیہ کچھ کہنے کی پوزیشن میں دکھائی نہیں دے رہی۔ ایسا لگتا ہے کہ گراں فروشی کے آگے بند باندھنے کی اس نے کسی بھی طرح کی تیاری کی ہی نہیں۔
Comments are closed on this story.