بنگلا دیش: عوامی لیگ نے الیکشن جیت کر ریکارڈ قائم کردیا، شیخ حسینہ کی 8ویں فتح
بنگلا دیش میں شیخ حسینہ واجد کی جماعت عوامی لیگ نے مسلسل چوتھی اور مجموعی طور پر پانچویں بار الیکشن جیت کر ریکارڈ قائم کردیا۔
اپوزیشن کی طرف سے مکمل بائیکاٹ کے باعث بنگلا دیش کا یہ الیکشن متنازع رہا ہے۔ ووٹوں کی گنتی مکمل ہونے پر عوامی لیگ دو تہائی اکثریت کی حامل قرار پائی۔
پولنگ کے دوران ملک بھر میں متعدد مقامات پر ہنگامہ آرائی ہوئی۔ اپوزیشن جماعتوں کے ارکان اور پولیس میں تصادم کی اطلاعات بھی موصول ہوئیں۔
عوامی لیگ نے 300 سے زائد نشستوں والی پارلیمنٹ میں 223 نشستیں حاصل کی ہیں۔ 45 نشستیں آزاد امیدواروں نے حاصل کیں۔ تقریباً تمام ہی آزاد امیدواروں کا تعلق عوامی لیگ سے تھا۔ جاتیو پارٹی نے 8 نشتیں حاصل کیں۔
شیخ حسینہ واجد نے گوپال گنج تھری کی نشست 1986 کے بعد مسلسل آٹھویں بار جیتی۔ انہوں نے 2 لاکھ 49 ہزار سے زائد ووٹ لیے جبکہ ان کے حریف بنگلا دیش سپریم پورٹی کے نظام الدین لشکر کو صرف 469 ووٹ ملے۔
76 سالہ شیخ حسینہ واجد 2009 سے بنگلا دیش پر حکومت کر رہی ہیں۔ اس بار ٹرن آئوٹ برائے نام رہا ہے۔ عوامی لیگ کے سیکریٹری جنرل عبیدالقادر نے کہا کہ عوام نے بی این پی اور جماعتِ اسلامی کے بائیکاٹ کو مسترد کردیا۔
ابتدائی اطلاعات میں بتایا گیا تھا کہ ٹرن آئوٹ 40 فیصد رہا تاہم چیف الیکشن کمشنر قاضی حبیب الاول نے کہا ہے کہ بعد میں یہ ثابت ہوسکتا ہے کہ ٹرن آئوٹ اس سے خاصا کم رہا۔ سیاسی مبصرین کا کہنا ہے کہ گزشتہ الیکشن میں ٹرن آئوٹ 80 فیصد سے زیادہ رہا تھا۔
ملک بھر میں 20 سے زائد پرتشدد واقعات رونما ہوئے۔ 10 واقعات میں پولنگ اسٹیشنز کو نشانہ بنایا گیا۔ درجنوں افراد زخمی ہوئے۔ پولیس نے اپوزیشن کے چند کارکنوں کو گرفتار بھی کیا ہے۔
سابق وزیر اعظم خالدہ ضیا کی بنگلہ دیش نیشنلسٹ پارٹی نے کہا ہے کہ وہ حکومت کے خلاف احتجاجی مہم تیز کرنے کا ارادہ رکھتی ہے۔ بی این پی نے الیکشن کو عوام کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کے مترادف قرار دیا ہے۔
ہیومن رائٹس واچ کا کہنا ہے کہ 28 اکتوبر کو غیر معمولی احتجاج کچلنے کے لیے حکومت نے اپوزیشن کے 10 ہزار سے زائد کارکنوں کو گرفتار کیا تھا۔ 28 اکتوبر کو ہنگامہ آرائی میں 16 افراد ہلاک ہوئے تھے۔ سیاسی مخالفین کی اکثریت جیل میں ہے۔
خالدہ ضیا کے بیٹے طارق رحمٰن 2008 کے بعد سے لندن میں قیام پذیر ہیں۔ ایک ای میل میں انہوں نے برطانوی نشریاتی ادارے کو بتایا کہ عوامی لیگ کی حکومت کے خلاف پرامن تحریک جاری رہے گی۔ خالدہ ضیا کرپشن کے الزامات کے تحت زیرِ حراست ہیں۔ طارق رحمٰن کو دہشت گردی میں ملوث ہونے کے الزام کا سامنا ہے۔ بنگلا دیش پہنچنے پر انہیں گرفتار کیا جاسکتا ہے۔
بی این پی نے انتخابات کے لیے نگراں حکومت کے قیام کا مطالبہ کیا تھا جو حسینہ واجد کی حکومت نے مسترد کردیا۔ اس پر بی این پی انتخابی عمل سے الگ ہوگئی۔
پولنگ کے دوران تقریبا 800،000 اہلکاروں نے سیکیورٹی کے فرائض انجام دیے جس میں پولیس، نیم فوجی اور پولیس معاونین شامل تھے۔ بعض مقامات پر مسلح افواج کو بھی تعینات کیا گیا۔
بنگلہ دیش کے 12 کروڑ رجسٹرڈ ووترز میں نصف خواتین ہیں۔
سابق حکمراں جماعت بنگلا دیش نیشنلسٹ پارٹی کے کارکنوں نے چٹا گرام (سابق چٹاگانگ کا چاٹگام) کے علاقے چاند گائوں میں ٹائر جلاکر سڑکیں بند کیں۔ جب پولیس رکاوٹیں ہٹاکر سڑکیں کھلوانے پہنچی تو بی این پی کے کارکنوں اور پولیس کے درمیان تصادم شروع ہوگیا۔
چٹا گرام میں پولیس کے اعلیٰ افسر پنکج دتہ نے بتایا کہ بی این پی کے کارکنوں نے صورتِ حال خراب کرنے کی کوشش کی۔ جب پولیس نے گاڑیوں کی آمد و رفت بحال کرنے کی کوشش کی تو انہوں نے پتھرائو شروع کردیا جس پر پولیس کو بھی ہوائی فائرنگ کے ذریعے جواب دینا پڑا۔
کئی مقامات سے پولنگ میں دھاندلی کی اطلاعات بھی ملی ہیں۔ بنگلا دیشی دارالحکومت ڈھاکہ سے 70 کلومیٹر دور ضلع نرسنگدی میں جعلی ووٹ بھگتائے جانے کی اطلاع پر پولنگ معطل کردی گئی۔
ایک مقامی پریس رپورٹر نے الجزیرہ ٹی وی کو بتایا کہ ابراہیم پور گورنمنٹ پرائمری اسکول کے پولنگ اسٹیشن میں بے قاعدگیوں کی اطلاعات ملنے پر ڈسٹرکٹ ریٹرننگ افسر بدیع الاسلام نے پولنگ رکوادی۔
Comments are closed on this story.