Aaj News

اتوار, نومبر 03, 2024  
01 Jumada Al-Awwal 1446  

سپریم کورٹ نے تاحیات نااہلی کیس کا فیصلہ محفوظ کرلیا

فیصلہ آج نہیں لیکن جلد مختصر فیصلہ سنایا جائے گا، جسٹس قاضی فائز عیسیٰ
اپ ڈیٹ 05 جنوری 2024 03:29pm

تاحیات نااہلی کیس میں سماعت کے دوران چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیے کہ پارلیمنٹ نے 5 سال نااہلی کا فیصلہ کر لیا تو ہمیں قبول کرنے میں کیا مسئلہ کیا ہے، پارلیمنٹ نے جو قانون بنایا اس میں عدالتی فیصلوں کو مدنظر رکھا گیا، عدالت نے کیس کا فیصلہ محفوظ کرلیا۔

سپریم کورٹ نے تاحیات نااہلی کی مدت کے تعین سے متعلق کیس کا فیصلہ محفوظ کرلیا ہے، اور چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیے کہ فیصلہ آج نہیں لیکن جلد مختصر فیصلہ سنا دیا جائے گا۔

آج کی سماعت کا احوال

سپریم کورٹ میں تاحیات نااہلی کی مدت کے تعین سے متعلق کیس کی سماعت ہوئی، چیف جسٹس کی سربراہی میں7 رکنی بینچ نے سماعت کی، لارجر بینچ میں جسٹس منصورعلی شاہ، جسٹس یحیی، جسٹس امین الدین، جسٹس جمال مندوخیل، جسٹس علی مظہر، جسٹس مسرت ہلالی بینچ کا حصہ ہیں۔

وکیل مخدوم علی خان کے دلائل

سماعت کا آغاز ہوا تو جہانگیر ترین کے وکیل مخدوم علی خان نےدلائل کاآغازکردیا۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ انتخابات سے متعلق انفرادی کیس ہم نہیں سنیں گے، ہم آئینی تشریح سے متعلق کیس سنیں گے، انفرادی کیس اگلے ہفتے کسی اور بینچ میں لگادیں گے، اس وقت قانونی اورآئینی معاملے کو دیکھ رہے ہیں۔

وکیل مخدوم علی خان نے کہا کہ بنیادی معاملہ اسی عدالت کاسمیع اللہ بلوچ کیس کاہے، سپریم کورٹ بارایسوسی ایشن نےبھی سمیع اللہ بلوچ کیس میں سوال اٹھایا ہے۔

جسٹس منصور نے استفسار کیا کہ آپ کےمطابق نااہلی کا ڈکلیریشن سول کورٹ سے آئے گا۔ جس پر وکیل مخدوم علی نے کہا کہ جی ڈیکلیریشن سول کورٹ سے آئے گا، سول کورٹ فیصلے پر کسی کا بنیادی آئینی حق تاعمر ختم نہیں ہوتا، کامن لاء سے ایسی کوئی مثال مجھے نہیں ملی، کسی کا یوٹیلیٹی بل بقایا ہو جب ادا ہو جائے تو وہ اہل ہو جاتا ہے۔

جسٹس جمال مندوخیل نے استفسار کیا کہ کیاسول کورٹ نااہلی کا ڈکلیریشن دےسکتاہے۔ وکیل مخدوم علی نے کہا کہ سول کورٹ ایسا ڈکلیریشن نہیں دےسکتا، کون ساسول کورٹ ہےجوواجبات باقی ہونے پرکہہ دے یہ صادق وامین نہیں۔

عدالت نے استفسار کیا کہ کیا قانون سازی سےڈیکلیریشن پرنااہلی کی مدت متعین کی جاسکتی ہے؟۔ جس پر وکیل مخدوم علی نے کہا کہ آئین میں کورٹ آف لاءکی بات ہے، جس میں سول اورکرمنل دونوں عدالتیں آتی ہیں، کل جسٹس مسرت ہلالی نےپوچھاآرٹیکل62اور63 الگ الگ رکھنےکی وجہ کیاتھی، اہلیت اور نااہلی کو الگ الگ رکھا گیا ہے۔

عدالت نے استفسار کرتے ہوئے ریمارکس دیے کہ آرٹیکل62 کا اطلاق الیکشن سے پہلے ہوتا ہے یا بعد میں بھی ہوسکتا ہے۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ ہم خود کو آئین کی صرف ایک مخصوص جز تک محدود کیوں کر رہے ہیں، ہم آئینی تاریخ، بنیادی حقوق کو نظرانداز کیوں کر رہے ہیں، مخصوص نئی جزئیات داخل کرنے سے کیا باقی حقوق لے لئے گئے۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ ہم پاکستان کی تاریخ کوبھول نہیں سکتے، پورے ملک کو تباہ کرنے والا 5 سال بعد اہل ہو جاتا ہے، صرف کاغذات نامزدگی میں غلطی ہو جائے تو تاحیات نا اہل، صرف ایک جنرل نے یہ شق ڈال دی تو ہم سب پابند ہو گئے، خود کو محدود نہ کریں بطور آئینی ماہر ہمیں وسیع تناظر میں سمجھائیں۔

وکیل مخدوم علی نے مؤقف اختیار کیا کہ آرٹیکل 62 اور 63 کو ایک دوسرے سے الگ نہیں پڑھا جا سکتا، ان دونوں آرٹیکلز کو بنیادی حقوق والے آرٹیکل17 سے الگ بھی نہیں پڑھا جا سکتا۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ یہ کہا گیا سادہ قانون سازی سے آئین میں دی چیز نہیں بدلی جاسکتی، ہم مگر آئینی ترمیم کو بھی کالعدم کر دیتے ہیں، کیا پاکستانی ارکان پارلیمنٹ دنیا میں سب سے بہترین ہیں۔

وکیل مخدوم نے جواب دیا کہ ظاہر ہے ایسا نہیں ہے۔ جس پر چیف جسٹس نے سوال اٹھاتے ہوئے ریمارکس دیے کہ ہم نے اپنےارکان کی اہلیت کا جو پیمانہ رکھا ہے، کیا دنیا میں کہیں اور ہے۔ جس پر وکیل نے کہا کہ میرےعلم میں نہیں کہ دنیا میں کہیں ایسا ہو۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ کہا گیاعام قانون سازی آئینی ترمیم کا راستہ کھول سکتی ہے، اس کا کیا مطلب ہے ہم اپنی مرضی سے جو فیصلہ چاہیں کر دیں، کیا ہمارے پارلیمان میں بیٹھے لوگ بہت زیادہ سمجھدار ہیں، پاکستان کی تاریخ کو فراموش نہیں کیا جاسکتا۔

چیف جسٹس نے کہا کہ نااہلی سے متعلق کیس میں پبلک نوٹس جاری کیا، مگر کوئی ایک سیاسی جماعت فریق نہیں بنی، پاکستان کے عوام کا کسی کوخیال نہیں ہے، آئین پر ایوب خان نے تجاوز کیا اور پھر یہ سلسلہ آگے چلتا گیا۔

جسٹس منصور نے ریمارکس دیے کہ میں آئین کو 18ویں ترمیم کے بعد سے دیکھ رہا ہوں، ہمیں تشریح کیلئے آئین میں دیئے ٹولز پر ہی انحصار کرنا ہے۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ آئین نے نہیں کہا تھا نا اہلی تاحیات ہے یہ ہم نے کہا، کوئی قتل کرکے لواحقین سے صلح کرلےتو معاملہ ختم ہو جاتا ہے، کاغذات نامزدگی میں کچھ غلط ہو جائے تو تاحیات نااہل کیسے ہو جائے گا۔

چیف جسٹس نے سوال اٹھایا کہ کاغذات نامزدگی میں پوچھا جاتا ہے آپ کے پاس کتنا سونا ہے،
اگر سونا رکھنے پر درست نہ بتایا جائے تو تاحیات نااہل کر دیتے ہیں، تاحیات نااہلی کی کوئی تو منطق ہونی چاہئے۔

جسٹس جمال خان نے وکیل سے استفسار کیا کہ فرا ڈپر ایک شخص کو سزا ہو جائے تو کیا سزا کے بعد انتخابات لڑ سکتا ہے۔ جس پر وکیل مخدوم علی نے جواب دیا کہ دھوکا دہی میں سزا پوری ہونے کے بعد انتخابات میں حصہ لیا جا سکتا ہے۔

جسٹس جمال خان مندوخیل نے ریمارکس دیے کہ عوام کو فیصلہ کرنا چاہیے کون صادق اور امین ہے۔

جسٹس مسرت ہلالی نے ریمارکس دیے کہ کیا ایک شخص کی غلطی سے پورا حلقہ متاثر کیا جا سکتا ہے، مخصوص کیس کے باعث حلقے کے لوگ اپنےنمائندے سےمحروم کیوں ہوں، کیسے ممکن ہے ایک شخص پر مقدمہ بنا ہو اور پورا حلقہ اس کے نتائج بھگتے۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ اس کیس پر لارجر بینچ بنایا گیا تھا تاکہ سوالات کا جواب مل سکے، معاملہ الجھتا جا رہا ہے۔

جسٹس محمد علی مظہر نے وکیل مخدوم علی سے استفسار کیا کہ کیا ہائیکورٹ ڈکلیریشن جاری کرسکتی ہے۔ جس پر وکیل مخدوم نے کہا کہ میں سمجھتا ہوں آرٹیکل 199کے تحت ہائیکورٹ ڈکلیریشن جاری کرسکتی ہے۔

جسٹس منصورعلی شاہ نے استفسار کیا کہ قانون سازوں نے الیکشن ایکٹ میں ترمیم کرکےآرٹیکل 62 ون ایف میں نااہلی کی مدت پانچ سال کردی، کیا بہترنہ ہوتا کہ قانون میں واضح لکھا جاتا کہ 62 ون ایف کے ذریعے 5 سال نااہلی کی سزا ہوگی؟

وکیل مخدوم علی خان نے کہا کہ اس وقت قانون آپکے سامنے چیلنج نہیں ہوا آپ اپیل سن رہے ہیں۔

جسٹس منصور علی شاہ نے ریمارکس دیے کہ مدت پانچ سال طے کرنے کا معاملہ عدالت آیا، کیا عدالت یہ کہہ سکتی ہے کہ سول کورٹ سے ڈگری ہوئی توسزا پانچ سال ہو۔

وکیل نے کہا کہ سیکشن 232 تین کو اگلی پارلیمنٹ ختم کرسکتی ہے، عدالت نے طےکرنا ہے کہ سمیع اللہ بلوچ کیس درست تھا یا نہیں، اگرسمیع اللہ بلوچ کیس کالعدم قراردیا گیا توالیکشن قانون کا اطلاق ہوگا۔

جسٹس محمد علی مظہر نے ریمارکس دیے کہ ہم سیکشن 232 کو کیسے کالعدم قرار دیں وہ تو ہمارے سامنے ہے ہی نہیں۔

جس پر وکیل مخدوم علی خان نے جواب دیا کہ تاحیات نا اہلی کا اصول عدالتی فیصلے سے طے ہوا۔

جسٹس یحیی آفریدی نے ریمارکس دیے کہ میرے خیال میں فیصلے میں تاحیات کا ذکر نہیں ہے۔ جس پر وکیل مخدوم علی نے کہا کہ فیصلے میں کہا گیا جب تک ڈکلریشن رہے گا نااہلی رہے گی۔

جسٹس امین الدین خان نے استفسار کیا کہ اگرعدالت ڈکلیریشن کی ہی تشریح کردے تو کیا مسئلہ حل ہو جائے گا۔ جس پر وکیل مخدوم علی نے جواب دیا کہ ماضی کا حصہ بنے ہوئے ڈکلیریشن کاعدالت دوبارہ کیسے جائزہ لے سکتی ہے، جو مقدمات قانونی چارہ جوئی کے بعد حتمی ہوچکے انہیں دوبارہ نہیں کھولا جاسکتا۔

جسٹس منصورعلی شاہ نے استفسار کیا کہ ڈکلیریشن حتمی ہوچکا ہے تو الیکشن پر اس کے اثرات کیا ہوں گے۔

جسٹس جمال مندوخیل نے ساتھی جج سے سوال کیا کہ فیصل واوڈا کیس میں آپکا کیا خیال ہے۔ جس پر جسٹس منصور نے جواب دیا کہ اس کیس میں ڈکلیریشن نہیں تھا۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ جب پارلیمنٹ نے نااہلی کی مدت طے کر دی تو یہ سوال تو اکیڈمک سوال ہوا کہ نااہلی کی مدت کیا ہوگی۔

جسٹس منصورعلی شاہ نے استفسار کیا کہ اگر سمیع اللہ بلوچ فیصلے کو کالعدم قرار دیں تو سزا کتنی ہوگی۔ جس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ پارلیمنٹ کہہ چکی ہے نااہلی 5 سال ہوگی، کیا سمیع اللہ بلوچ کیس میں اٹارنی جنرل کونوٹس کیا گیا تھا؟ریکارڈ منگوا لیں۔

جسٹس منصور علی شاہ نے سیکشن 232 نے عدالتی معاون کے مطابق سمیع اللہ بلوچ فیصلے کو بے اثرکردیا۔

وکیل مخدوم علی نے کہا کہ سپریم کورٹ صرف سمیع اللہ بلوچ فیصلے کو دیکھے، سیکشن 232 چیلنج ہی نہیں کیا گیا، سپریم کورٹ میں توبہ کے نظریہ کی بات ہوئی، عدالت کو سمیع اللہ بلوچ کیس میں تاحیات نااہلی کے فیصلے کو ختم کرنا ہوگا۔

چیف جسٹس نے وکیل سے سوال کیا کہ آپ چاہتے ہیں عدالت تاحیات نااہلی کا فیصلہ واپس لے؟۔ جس پر وکیل نے جواب دیا کہ تاحیات نااہلی کا فیصلہ واپس ہونے سے پہلے مدت کم نہیں ہوسکتی۔

جسٹس محمد مظہر نے ریمارکس دیے کہ قانون سازی کے ذریعے ڈکلیریشن کی مدت 5 سال کی گئی۔ وکیل نے جواب دیا کہ نااہلی کی مدت مناسب وقت کیلئے ہونی چاہئے، تاحیات نہیں۔

چیف جسٹس نے وکیل مخدوم علی سے کہا کہ آپ آج ہی اپنی تحریری معروضات بھی جمع کرادیں، پورا پاکستان 5 سال نااہلی کے مدت کے قانون سےخوش ہے، کسی نے5 سال نااہلی کا قانون چیلنج ہی نہیں کیا۔

جہانگیر خان ترین کے وکیل مخدوم علی خان نے دلائل مکمل کرتے ہوئے عدالت سے استدعا کی کہ سمیع اللہ بلوچ فیصلے کو ختم کریں، انہیں بنیادی حقوق سے محروم رکھا گیا، سپریم کورٹ الیکشن ایکٹ پر فیصلہ نہ دے، وہ چیلنج نہیں ہوا۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ اٹارنی جنرل کو بعد میں سن لیتے ہیں پہلے دوسرے وکلا کو سن لیتے ہیں۔

جسٹس جمال مندو خیل نے وکیل مخدوم علی سے استفسار کیا کہ کیا سمیع اللہ بلوچ کیس میں ڈکلیریشن دی گئی یا صرف پرنسپل طے ہوا۔ جس پر وکیل مخدوم علی نے جواب دیا کہ نواز شریف کیس میں بیٹے سے تخواہ نہ لینے پر تاحیات نااہل کیا گیا۔

چیف جسٹس قاضی فائزعیسیٰ نے وکیل کو نواز شریف کا نام لینے سے روک دیا اور مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ مخدوم علی خان صاحب اس عدالت میں کسی کا نام مت لیں، میں نہیں چاہتا یہاں سیاسی لوگوں کےنام لئے جائیں یا معاملے کو سیاسی رنگ دیا جائے، جو شخص خود عدالت نہیں آیا اس کی وکالت بھی نہ کریں۔

چیف جسٹس نے کہا کہ اٹارنی جنرل کو جمعہ کی نماز کے بعد سنیں گے۔ عدالت نے کیس کی سماعت میں جمعہ کی نماز کے بعد تک وقفہ کردیا۔

اٹارنی جنرل منصور اعوان کے دلائل

وقفے کے بعد سماعت دوبارہ شروع ہوئی تو اٹارنی جنرل منصور اعوان نے دلائل شروع کئے۔

چیف جسٹس نے اٹارنی جنرل سے استفسار کیا کہ کیا سمیع اللہ بلوچ کیس میں خاکوانی کیس پربحث ہوئی۔ جس پر اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ نہیں سمیع اللہ کیس میں خاکوانی کیس پربحث نہیں ہوئی۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ یہ بڑی عجیب بات ہے۔

جسٹس منصور علی شاہ نے استفار کیا کہ اصل میں خاکوانی کیس کس معاملے پر تھا۔ جس پر اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ خاکوانی کیس نا اہلی سے متعلق تھا، جسٹس جواد نے خاکوانی کیس میں کہا نااہلی کا معاملہ بعد میں دیکھیں گے، لیکن کیس میں پھر یہ معاملہ بعد نہیں دیکھا گیا۔

جسٹس مسرت ہلالی نے استفسار کیا کہ اخلاقی بدنیتی کے بارے میں قانون مزید کیا کہتا ہے۔ جسٹس منصور نے سوال کیا کہ آپ کیا کہنا چاہتےہیں سمیع اللہ کیس کا فیصلہ درست نہیں۔

اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ جی بالکل میں سمجھتا ہوں سمیع اللہ کا فیصلہ درست نہیں ہوا، صابر شاہ کیس میں سپریم کورٹ نے کہا آرٹیکل 62 الیکشن سے پہلے اور 63 بعد میں لاگو ہو گا۔

اٹارنی جنرل نے کہا کہ ڈی، ای، ایف، ایچ کلاز شامل کرنے سے آرٹیکل 62 الجھ گیا، خاکوانی کیس7 رکنی اور سمیع اللہ کیس کا فیصلہ 5 رکنی بینچ نے کیا۔

چیف جسٹس نے اٹارنی جنرل سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ آپ خاکوانی کیس سے متعلق بات کریں، خاکوانی کیس کے 7 رکنی بینچ کا فیصلہ کیسے پس پشت ڈالا گیا، 7رکنی بینچ کا فیصلہ موجود ہے تو ہم 5 رکنی بینچ کے فیصلے پر انحصار کیوں کریں۔

اٹارنی جنرل نے کہا کہ سمیع اللہ بلوچ کیس میں جسٹس آصف سعید کھوسہ نے تجاویز پر مبنی نوٹ لکھا تھا۔

جسٹس منصور شاہ نے ریمارکس دیے کہ سمیع اللہ بلوچ کیس میں ڈکلیریشن کا تعین کئے بغیر فیصلہ دیا گیا، اس کا مطلب ہے سمیع اللہ کیس میں بنیادی قانون دیکھے بغیر فیصلہ دیا گیا۔

اٹارنی جنرل نے کہا کہ 73 آئین میں 2 ترامیم شامل کرنے کی کوشش کو پارلیمنٹ نے مسترد کیا، رکن کے کردار،ایمان سے متعلق دونوں ترامیم مذہبی جماعتوں کو دی تھیں، 1985میں وہ دونوں ترامیم واپس آئین میں ڈالی گئیں۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ سمجھنے میں مشکل ہورہی ہے کہ خاکوانی کیس کا ذکر کسی وکیل نے بھی نہیں کیا، ہم سمیع اللہ بلوچ کیس میں پھنسے ہوئے ہیں خاکوانی کیس کوکیوں نہ دیکھیں، پارلیمنٹ نے 5 سال کا ایک فیصلہ کر لیا ہمیں اسے قبول کرنے میں مسئلہ کیا ہے، جسٹس آصف سعید کھوسہ کے سوالات کے جوابات کیوں نہیں دیئے گئے، بتائیں کسی کے ایماندار ہونے کا فیصلہ کون کر سکتا ہے۔

جسٹس منصور نے ریمارکس دیے کہ جب تک ڈکلیریشن کا معاملہ حل نہیں ہوتا ہم اس سے آگے نہیں جاسکتے، جب تک ڈکلیریشن کا معاملہ حل نہ ہو تو فیصلے کیسے دیئے گئے۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ اچھا ہو یا برا، پارلیمنٹ کے بنائے آئین کی تشریح کرنا ہمارا کام ہے، چاہے ہم قانون سے اتفاق کریں یا نہ کریں مگر ادھر ادھر کیسے جا سکتے ہیں، ہم پارلیمنٹ کو نہیں بھول سکتے کہ اس طریقے سے قانون بنائیں یہ ان کا کام ہے، پارلیمنٹ نے جو قانون بنایا اس میں عدالتی فیصلوں کو مدنظر رکھا گیا ۔

Supreme Court

Justice Qazi Faez Isa

SUPREME COURT OF PAKISTAN (SCP)