تاحیات نااہلی کا فیصلہ اسلامی اصولوں کیخلاف ہے، سپریم کورٹ
سپریم کورٹ نے تاحیات نااہلی سے متعلق کیس میں ریمارکس دیے کہ توبہ کا دروازہ ہمیشہ کھلا رہتا ہے، تاحیات نااہلی کا فیصلہ اسلامی اصولوں کیخلاف ہے۔
چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں 7 رکنی لارجر بینچ نے آرٹیکل 62 ون ایف کے تحت تاحیات نااہلی پر کیس کی سماعت کی۔ جسٹس منصورعلی شاہ، جسٹس یحییٰ آفریدی، جسٹس امین الدین خان، جسٹس جمال مندوخیل، جسٹس محمد علی مظہر اور جسٹس مسرت ہلالی بھی بینچ میں شامل ہیں۔
دسمبر کے وسط میں سپریم کورٹ نے نااہلی کی مدت سے متعلق تمام مقدمات ایک ساتھ سننے کا فیصلہ کیا تھا۔
سماعت شروع ہوئی تو چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ عدالتی معاونین سب آگئے ہیں؟ جس پر عدالتی معاون عزیز بنڈاری نے جواب دیا کہ ریما عمر پیش نہیں ہوسکیں۔
چیف جسٹس نے کہا کہ ہم نے تین عدالتی معاونین مقرر کیے تھے، ریما عمر نے اپنا تحریری جواب بھجوایا ہے۔
وکیل خرم رضا کے دلائل
اس کے بعد سجاد الحسن کے وکیل خرم رضا روسٹرم پر آگئے، گزشتہ سماعت پر خرم رضا نے تاحیات نااہلی کے حق میں اپنی رائے دی تھی۔
خرم رضا نے عدالتی اختیار پر سوال اٹھاتے ہوئے کہا کہ یہ اپیلیں کس قانون کے تحت چل رہی ہیں، کیا آرٹیکل 187 کے تحت اپیلیں ایک ساتھ سماعت کیلئے مقرر کی گئیں؟
جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ آپ اپنی درخواست تک محدود رہیں۔ خرم رضا نے کہا کہ سپریم کورٹ یہ کیس کس دائرہ اختیار پر سن رہی ہے؟
چیف جسٹس نے کہا کہ آرٹیکل 62 ون ایف کورٹ آف لاء کی بات کرتا ہے، آرٹیکل 99 ہائیکورٹ کو اور آرٹیکل 184/3 سپریم کورٹ کو ایک اختیار دیتا ہے۔ سوال یہ ہے کیا آرٹیکل 62 ون ایف سپریم کورٹ کو کوئی اختیاردیتا ہے؟
خرم رضا نے کہا کہ ٹریبونل سے آنے والے فیصلے کے خلاف کیس سپریم کورٹ اپیل کے دائرہ اختیار میں سنتی ہے۔
چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ کیا 62 ون ایف ٹریبونل کو بھی تاحیات نااہلی کا اختیار دیتا ہے؟ یا صرف تاحیات نااہلی کا یہ اختیار سپریم کورٹ کے پاس ہے؟
وکیل خرم رضا نے کہا کہ آرٹیکل 62 ون ایف کی ڈکلئیریشن دینے کا اختیار الیکشن ٹربیونل کا ہے، آرٹیکل 62 ون ایف میں کورٹ آف لاء درج ہے سپریم کورٹ نہیں۔ جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ بہتر ہوگا ہمیں الیکشن ٹربیونل کے اختیارات کی طرف نہ لے کر جائیں۔
وکیل خرم رضا نے عوامی نمائندگی ایکٹ کا حوالہ دیا۔ جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ آپ اپنی ہی معروضات کی نفی کرنے والی بات کر رہے ہیں، جب 62 ون ایف کے تحت کوئی ٹریبونل نہیں کرتا تو سپریم کورٹ کیسے کر سکتی ہے؟ کیا سپریم کورٹ الیکشن معاملے میں اپیلٹ فورم کے طور پر کام نہیں کرتی؟
چیف جسٹس نے کہا کہ اضافی اختیار تاحیات نااہلی والا یہ کہاں لکھا ہے؟۔ جس پر خرم رضا نے کہا کہ سپریم کورٹ ڈیکلیریشن دے سکتی ہے، جن کیسز میں شواہد ریکارڈ ہوئے ہوں وہاں سپریم کورٹ ڈیکلیریشن دے سکتی ہے۔
چیف جسٹس نے کہا کہ پھر تو آپ سمیع اللہ بلوچ کیس کی حمایت نہیں کر رہے۔ جس پر خرم رضا نے کہا کہ میں ایک حد تک ہی اس کیس کی حمایت کر رہا ہوں۔
چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ انتخابات میں حصہ لینے کیلئے شرائط دی گئی ہیں۔
اس موقع پر جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ کاغذات نامزدگی میں غلط بیانی پر آپ امین نہیں رہتے، مگر یہ نہیں کہا جاسکتا کہ آپ تاحیات انتخابات نہیں لڑسکتے۔
چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ آرٹیکل 62 ون ایف میں نااہلی کی مدت کہاں ہے؟ آرٹیکل 62 ون ایف کے تحت تاحیات نااہلی سمیع اللہ کیس میں دی، ایک الیکشن میں کوئی گریجویٹ نہ ہونے پر نااہل ہوا، اگلی بار گریجویشن کی شرط ہی نہیں ہوئی تو اس وقت وہ نااہل کیسے ہوگا؟
چیف جسٹس نے کہا کہ ایک شخص دیانتداری سے کہتا ہے وہ میٹرک پاس ہے، اس پر وہ اگلے الیکشن میں بھی نااہل کیسے ہے؟ آپ نے جو تفریق بتائی اس سے متفق نہیں، ایسے تو کوئی غیرملکی بھی الیکشن لڑ کر منتخب ہوسکتا ہے۔
وکیل خرم رضا نے کہا کہ اسلام بھی ایماندار اور دیانتدار ہونے کا درس دیتا ہے۔ جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ اسلام کو اس کیس میں نہ لائیں، توبہ کا تصور تو اسلام میں بھی ہے، گنہگار کو معاف بھی کیا جاتا ہے۔
جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ آپ آرٹیکل 62 اور 63 کی پہلی سطر پڑھیں۔ جس پر وکیل خرم رضا نے کہا کہ عدالت نے صرف 62 ون ایف کی تشریح کرنی ہے۔ جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ آپ کہتے ہیں ہم 62 اور 63 کو ملا کر نہیں تشریح کرسکتے؟
جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ قانون نااہلی کی مدت کا تعین کرتا ہے، 62 ون ایف کے تحت تاحیات نااہلی کو برقرار رکھا گیا، کورٹ آف لاء کو ڈکلیریشن کا اختیار دیا گیا، جب قانون آچکا ہے اور نااہلی پانچ سال کی ہوچکی تو تاحیات والی بات کیسے قائم رہے گی، قتل اور اغوا جیسے کیسز میں تو بندہ دوبارہ الیکشن کا اہل ہوجاتا ہے۔
چیف جسٹس نے وکیل خرم رضا کو کہا کہ آپ اسلام کی بات کرتے ہیں تو پھر اس کی سپورٹ میں کوئی دلیل بھی دیں، توبہ اور راہ راست، صراط المستقیم پر واپس آنے کا اصول اسلام میں ہے۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ شروع میں تو چند ہی لوگ مسلمان تھے، کئی ایسے افراد تھے جو سخت اسلام مخالف تھے بعد میں خلفاء بنے، اس طرح تو خلفاء راشدین پھر واپس آہی نہیں سکتے تھے۔
چیف جسٹس نے کہا کہ سیاست دان عوام کے منتخب نمائندے ہوتے ہیں، آمروں اور سیاست دانوں کو ایک ساتھ نہیں پرکھا جاسکتا، آمر آئین توڑ کر حکومت میں آتا ہے منتخب ہوکر نہیں آتا۔ سیاست دانوں کو ایسے برا نہ بولیں وہ عوامی رائے سے منتخب ہوتے ہیں، جنرل ایوب نے آکر سب کو باہر پھینک دیا اور اپنے قوانین لائے۔ منافق کافر سے بھی زیادہ برا ہوتا ہے، کافر کو پتہ نہیں ہوتا، منافق سب جان کر کر رہا ہوتا ہے۔
چیف جسٹس نے کہا کہ آمروں نے صادق اور امین کی شرط اپنے لٸے کیوں نہیں ڈالی، پارلیمنٹرینز نے آٸین بنایا اور ڈکٹیٹروں نے آکر سیاست دانوں اور آٸین کو باہر پھینک دیا۔ فوجی آمر لوگوں کو انتخابی دوڑ سے باہر رکھنے کے لیے اپنی مرضی کے اقدامات اٹھاتے ہیں۔ ایک آمر آکر کہتا ہے کہ ڈگری کی شرط لازمی ہے اور دوسرا کہتا ہے کہ صادق اور امین ہونا ضروری ہے۔ ’آمروں نے صادق اور امین کی شرط اپنے لیے کیوں نہیں رکھی۔‘
چیف جسٹس نے وکیل خرم رضا سے کہا کہ ’فوجی آمر کے سامنے آپ لوگ کوئی بات ہی نہیں کرتے۔‘ نااہلی کی یہ شقیں ایک ڈکٹیٹر نے شامل کیں، یہ درست ہے یا غلط؟ یا تو ہم پھر ڈکٹیٹر شپ کو ٹھیک مان لیں، ایک ڈکٹیٹر آیا، دوسرا آیا، تیسرا آیا سب کو اٹھا کر پھینک دیا۔
چیف جسٹس نے کہا کہ پارلیمنٹ نے ایک قانونی کتاب بنا کر ہمیں دی، ایک شخص ٹہلتا ہوا آتا ہے کہتا ہے نہیں یہ سب ختم۔ ترامیم بھی گن پوائنٹ پر آئیں، کچھ لوگوں نے کہا چلو آدھی جمہوریت بھی آمریت سے بہتر ہے۔
چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ آئین کا تقدس تب ہوگا جب اسے ہم مانیں گے، یا تو ہم کہہ لیتے ہیں کہ بندوق کا تقدس مانیں گے۔ یہاں بیٹھے پانچ ججز کی دانش ساتھ پارلیمنٹ میں بیٹھے لوگوں سے زیادہ کیسے ہوسکتی ہے؟ جب تک کوئی جھوٹا ثابت نہیں ہوتا ہم کیوں فرض کریں وہ جھوٹا ہے، آپ اراکین اسمبلی کوجتنی بھی حقارت سے دیکھیں وہ ہمارے نمائندے ہیں، آپ ڈکٹیٹرز کی دانش کو اراکین اسمبلی کی دانش پر فوقیت نہیں دے سکتے۔
ایک اور وکیل نے جب اپنے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ یہ بات تو سچ ہے کہ فوجی آمروں نے آئین میں ترامیم متعارف کروائیں مگر اس کے بعد منتخب پارلیمان بھی ان ترامیم کے خلاف نہیں گئیں، لہٰذا اس کا مورد الزام صرف آمروں کو نہیں ٹھہرایا جا سکتا۔
چیف جسٹس نے وکیل سے کہا کہ ’یہ بات آپ کی درست ہے۔‘
وکیل خرم رضا نے کہا کہ پارلیمان نے تسلیم کر لیا کہ آئین خاموش ہے تو بھی آئینی ترمیم ضروری تھی۔ جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ آپ کہنا چاہتے ہیں 326 ارکان کی دانش کم اور پانچ ججز کی زیادہ ہے۔
جسٹس جمال نے کہا کہ پارلیمان نے سزا دینی ہوتی تو آرٹیکل 63 کی طرح 62 میں بھی شامل کر دیتی۔
وکیل خرم رضا نے کہا کہ پارلیمان نے نااہلی کو برقرار رکھا ہے لیکن اس کی مدت کا تعین نہیں کیا۔
چیف جسٹس نے کہا کہ فیصلے میں لکھا جاتا نااہلی کی مدت مقرر نہیں اس لئے نااہلی دوسال ہوگی تو کیا ہوتا؟ فیصلے کی کوئی نہ کوئی منطق ہونی چاہیے۔ جس پر خرم رضا نے کہا کہ دو سال نااہلی کا آئین میں کہیں نہیں لکھا ہوا۔
چیف جسٹس نے کہا کہ ایسے تو تاحیات نااہلی کا بھی کہیں نہیں لکھا ہوا۔ وکیل خرم رضا نے کہا کہ عدالت 187 کا اختیار استعمال کرے، الیکشن ایکٹ میں ترمیم کے غیرآئینی ہونے پر دلائل دوں گا۔ جس پر جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ الیکشن ایکٹ میں ترمیم کسی نے چیلنج نہیں کی۔
خرم رضا نے کہا کہ لاہور ہائیکورٹ میں الیکشن ایکٹ میں ترمیم چیلنج کی گئی ہے۔
جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ نااہلی کی مدت کی تشریح پہلے سپریم کورٹ نے کی پھر پارلیمان نے، کیا پارلیمان کی تشریح عدالت سے کم تر ہے؟
وکیل خرم رضا نے کہا کہ پارلیمان کا کام قانون سازی اور عدالت کا کام تشریح کرنا ہے۔
چیف جسٹس نے کہا کہ واضح کیا تھا انتخابات قریب ہیں ریٹرننگ افسران کا کام متاثر ہوگا، کوئی ریٹرننگ افسر عدالتی فیصلہ مانے گا اور کوئی الیکشن ایکٹ میں کی گئی ترمیم، ریٹرننگ افسران وکیل نہیں بیوروکریٹ ہیں، کوشش ہے کہ جلد فیصلہ کیا جائے تاکہ ریٹرننگ افسران کنفیوز نہ ہوں۔
جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ کیا جعلی ڈگری پر نااہلی آرٹیکل 62 ون ایف کے تحت ہوگی؟۔ جس پر وکیل محمد کاشف نے کہا کہ جعلی ڈگری پر فوجداری کارروائی ہونی چاہیے نااہلی نہیں۔
چیف جسٹس نے کہا کہ وکیل خرم رضا سمیت جو تاحیات نااہلی کی حمایت کررہے وہ اپنے نکات بتا دیں، تین وکلاء نے تاحیات نااہلی کی حمایت کی تھی۔
چیف جسٹس نے کہا کہ عثمان کریم صاحب اور اصغر سبزواری صاحب کیا آپ خرم رضا کے دلائل اپنا رہے ہیں؟۔ جس پر اصغر سبزواری کے وکیل نے کہا کہ تاحیات نااہلی اگر ڈکٹیٹر نے شامل کی تو اس کے بعد منتخب حکومتیں بھی آئیں، سمیع اللہ بلوچ کیس میں تاحیات نااہلی ”جج میڈ لاء“ ہے، جہانگیز ترین جیسے کیسز کی انکوائری ہونی چاہئے جنہیں ٹرائل کے بغیر تاحیات نااہل کر دیا گیا۔
وکیل عثمان کریم کے دلائل
اس کے بعد وکیل عثمان کریم روسٹرم پر آ گئے اور کہا کہ کوالیفیکیشن ہو یا ڈسکوالیفیکشن، مقصد آرٹیکل 62 اور 63 کا ایک ہی ہے۔
جسٹس مسرت ہلالی نے استفسار کیا کہ یہ صادق اور امین کی تعریف کیا ہے؟۔ جس پر وکیل عثمان کریم نے کہا کہ امین کا مطلب اسلامی تعلیمات سے نہیں لینا چاہیے، یہ تو غیرمسلموں کے لیے بھی درج شرط ہے۔
چیف جسٹس نے سوال اٹھایا کہ آئین انگریزی میں ہے تو صادق اور امین کے لفظ کیوں اردو میں شامل کیے گئے؟ کیا جنرل ضیا الحق یا ان کے وزیر قانون کو امین کی انگریزی نہیں پتا تھی؟ کیا ایسی چیزیں صرف کنفیوژن پیدا کرنے کیلئے آئین میں ڈالی گئیں؟۔
اس پر جسٹس مسرت ہلالی کا کہنا تھا کہ صادق اور امین کا تو مطلب وہی ہے نا جو اسلام میں ہے۔
چیف جسٹس نے کہا کہ کون ثابت کر سکتا ہے کہ کوئی شخص صادق اور امین ہے؟ جس پر وکیل عثمان کریم نے جواب دیا کہ یہ تو خدا ہی کر سکتا ہے۔
چیف جسٹس نے کہا کہ سمیع اللہ بلوچ فیصلے میں تشریح کرنے والے جج نے فیصل واوڈا کیس میں تشریح کیسے بدل دی۔ جس پر وکیل عثمان کریم نے کہا کہ آرٹیکل 62 ون ایف صرف کاغذات نامزدگی کی حد تک ہے۔
چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ کوئی شخص انتخابات لڑنے کے بعد نئی شہریت لے تو اس کیلئے مسائل پیدا ہوتے ہیں، آرٹیکل 63 میں دوہری شہریت والا پھنسے گا، 62 اور 63 ایک ہی مقصد کیلئے دو آرٹیکلز بنائے گئے۔
وکیل عثمان کریم نے کہا کہ سپریم کورٹ نے 2013 کے اللہ دینو بھائیو کیس کے فیصلے میں 62 ون ایف کی نااہلی دی، سپریم کورٹ کے پانچ رکنی بنچ نے اللہ دینو بھائیو فیصلے پر انحصار کر کے آرٹیکل 62 ون ایف کے تحت تاحیات نااہلی متعارف کرائی، سپریم کورٹ کے تین رکنی بنچ نے 2020 میں اللہ دینو بھائیو نظر ثانی کیس میں نااہلی کالعدم قرار دے دی، جسٹس بندیال نے 2020 کے اللہ دینو بھائیو فیصلے پر انحصار کر کے فیصل واوڈا کیس کا فیصلہ دیا۔
جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ یعنی آپ کے مطابق جسٹس بندیال نے اس فیصلے کو بنیاد بنا کر اپنے ہی مؤقف کی نفی کی؟
وکیل عثمان کریم نے کہا کہ سپریم کورٹ کا 62 ون ایف کا سمیع اللہ بلوچ کا فیصلہ اس لیے چلے گا کیونکہ پانچ رکنی بنچ کا ہے۔ جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ آپ اچھی تیاری کر کے آئے ہیں اور بھی معاونت کریں۔
چیف جسٹس نے کہا کہ الیکشن سر پر ہیں، ہم نے یہ مسئلہ حل کرنا ہے، نااہلی کے مسئلے کو ہمیشہ کیلئے طے ہونا چاہیے، آئین و قانون کے مطابق نااہلی سے متعلق فیصلہ ہونا چاہیے۔
وکیل عثمان کریم نے کہا کہ سپریم کورٹ اپنے فیصلے کو درست کر سکتی ہے، سپریم کورٹ کے فیصلے کے خلاف آئینی ترمیم لازمی نہیں۔
وکیل عثمان کریم الدین کے دلائل مکمل ہونے کے بعد چیف جسٹس نے مختصر وقفہ کرتے ہوئے سماعت میں سوا دو بجے تک وقفہ کر دیا۔
عدالتی معاون فیصل صدیقی کے دلائل
مقدمے کی سماعت دوبارہ شروع ہوئی تو عدالتی معاون فیصل صدیقی روسٹرم پر آگٸے، اور دلائل کا آغاز کرتے ہوئے کہا کہ سمیع اللہ بلوچ کا فیصلہ نااہلی کی مدت کاتعین کر رہا ہے، نااہلی کی مدت، طریقہ کار کا تعین ہونا ضروری تھا۔
چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ پارلیمنٹ نےعدالتی فیصلہ ختم کر دیا تو عدالت کیوں ختم کرے۔ جس پر وکیل فیصل صدیقی نے مؤقف پیش کیا کہ سمیع اللہ بلوچ نے ایسا فیصلہ دیا جس پر آئینی خلا تھا،۔
وکیل فیصل صدیقی نے سمیع اللہ بلوچ فیصلے کو ختم کرنے کی حمایت کرتے ہوئے مؤقف اختیار کیا کہ الیکشن ایکٹ میں کی گئی ترمیم کے پیچھےنیت دیکھنا ہوگی، ترمیم سے نااہلی کی مدت زیادہ سے زیادہ 5 سال کی گئی، سمیع اللہ بلوچ فیصلہ اس لیے آیا کہ آئینی خلا پرہوسکے۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ آئین میں تو قتل کی سزا بھی درج نہیں، اس لیے تعزیرات پاکستان لایا گیا۔ سمجھاجاتا ہے کہ آئینی خلا پر کرنے کیلئے عدالتی تشریح ہوگی، آئین جن چیزوں پر خاموش ہے، اس کا مقصد قانون سازی کا راستہ کھلا رکھنا ہو سکتا ہے۔
جسٹس منصورعلی شاہ نے وکیل فیصل صدیقی سے مکالمہ کرتے ہوئے ریمارکس دیے کہ آپ کہہ رہے الیکشن ایکٹ اور عدالتی فیصلے کی موجودگی میں تیسرا راستہ نکالا جائے، وہ نظریہ بتائیں جو اس صورتحال سے باہر نکالے۔
جسٹس منصور نے استفسار کرتے ہوئے کہا کہ کیا ایسا نہیں ہوسکتا کہ سپریم کورٹ یہ معاملہ پارلیمنٹ پرہی چھوڑدے، پارلیمنٹ خود دیکھے جو ترمیم کرنی ہے کر لیں۔
وکیل فیصل صدیقی نے کہا کہ چیزوں کو آئینی تناظر میں دیکھنا چاہیے، سب کچھ آئین کی حدود میں ہونا چاہیے۔
جسٹس منصور نے کہا کہ ہم کیسے آئینی حدود میں معاملات کو طے کریں، اس کا حل کیا نکالا جائے۔ جس پر وکیل فیصل صدیقی نے جواب دیا کہ اس معاملے کو آئندہ پارلیمنٹ پر چھوڑا جائے۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ توبہ کا دروازہ ہمیشہ کھلا رہتا ہے، تاحیات نااہلی کا فیصلہ اعمال نہیں انسان کو برا کہہ رہا ہے، تاحیات نااہلی کا فیصلہ اسلامی اصولوں کیخلاف ہے۔
جسٹس منصور نے سوال اٹھایا کہ اس بات کا کیا ثبوت ہوگا کہ کس نے توبہ کی ہے کس نے نہیں۔
وکیل فیصل صدیقی نے استدعا کی کہ عدالت آئندہ انتخابات تک ہی نااہلی کو محدود رکھے۔
جسٹس محمد علی مظہر نے استفسار کیا کہ آئندہ انتخابات تک ڈیکلریشن ازخود کیسے ختم ہوجائے گا، کاغذات نامزدگی مسترد ہو جائیں تو ڈیکلریشن لے کر امیدوار کہاں جائے گا۔
جس پر وکیل فیصل صدیقی کا کہنا تھا کہ آرٹیکل 62 ون ایف میں ڈیکلریشن دینے کا کوئی طریقہ کار نہیں دیا گیا، بے ایمانی کا ڈیکلریشن آنے تک ہر شخص ایماندار تصور ہوگا، فیصل واووڈا اور تاحیات نااہلی کے فیصلوں میں کوئی تضاد نہیں ہے، اس کیس میں نااہلی کا فیصلہ سپریم کورٹ نے کالعدم قرار دیا تھا، اور قرار دیا تھا کہ الیکشن کمیشن عدالت نہیں ہے۔
وکیل فیصل صدیقی نے مؤقف اختیار کیا کہ سمیع اللہ بلوچ اور فیصل واوڈا کے کیسز میں کوٸی تضاد نہیں، سپریم کورٹ نے سمیع اللہ بلوچ کیس میں غلط فیصلہ کیا، غلطی سب کرتے ہیں۔
عدالتی معاون فیصل صدیقی کے دلاٸل مکمل ہونے پر عدالت نے کیس کی سماعت کل صبح نو بجے تک ملتوی کردی۔
Comments are closed on this story.