Aaj News

اتوار, دسمبر 22, 2024  
20 Jumada Al-Akhirah 1446  

شمسی توانائی منصوبوں کیلئے آرمی چیف سے مدد طلب

بیورو کریسی رکاوٹیں کھڑی کر رہی ہے، پی ایف آر ای ویف کے صدر مصطفیٰ عبداللہ نے خط لکھ دیا
اپ ڈیٹ 04 جنوری 2024 10:47am

پاکستان فارن رینیوائبل انرجی فورم (PFREF) نے 600 میگاواٹ کے 13 ونڈ اور سولر پاور زیر التوا منصوبوں کے لیے آرمی چیف جنرل سید عاصم منیر سے رابطہ کیا ہے۔ ان منصوبوں کی مجموعی سرمایہ کاری 60 کروڑ ڈالر ہے۔

پی ایف آر ای ایف کے صدر مصطفیٰ عبداللہ نے آرمی چیف کے نام ایک خط میں ملک کو دوبارہ معاشی اور مالیاتی بلندیوں کی طرف لے جانے کی راہ میں حائل بیورو کریٹس کو ہٹانے پر انہیں سراہا ہے۔

اسپیشل انویسٹمنٹ فیسیلیٹیشن کائونسل (SIFC) کی ایگزیکٹیو کمیٹی نے کیٹیگری تھری کے ونڈ اور سولر پی وی منصوبوں کا اگلے مرحل میں جائزہ لینے اور دیگر زیر التوا معاملات کا جائزہ لینے کے لیے ایک بین الوزارتی پینل تشکیل دیا ہے۔

کیٹیگری تھری میں وہ منصوبے شامل ہیں جنہیں اقتصادی رابطہ کمیٹی کے 27 فروری 2019 تک کے فیصلوں کے تحت نیپرا سے ٹیرف اور جنریشن لائسنس کی ضرورت نہیں تھی۔ انہیں متبادل انرجی سے متعلق سابق بورڈ کے ذریعے مسابقتی بولیوں کے مرحلے سے گزارا جانا تھا۔ ان منصوبوں میں 2025 تک 500 میگاواٹ کے ونڈ اور 3120 میگاواٹ کے شمسی توانائی منصوبوں کا اضافہ کیا جانا ہے۔

ذرائع نے بتایا ہے کہ کیٹیگری تھری میں 2139 میگاواٹ کے 31 ونڈ پاور منصوبے اور 4193 میگاواٹ کے 69 سولر پاور منصوبے شامل ہیں۔ ونڈ پاور کے 22 اور سولر پاور کے 28 منصوبے آئی آر زیڈ کے ماتحت ہیں۔

مصطفیٰ عبداللہ نے آرمی چیف کے نام خط میں لکھا ہے کہ ہم آپ کو بتانا چاہتے ہیں کہ بیورو کریسی اب بھی ایف آئی ایف سی میں فیصلے کر رہی ہے جبکہ اس کائونسل کو بیورو کریسی کے فیصلوں سے آزاد ہونا تھا۔

ری نیو ایبل توانائی کے حصول کےلئے 400 ارب ڈالرز کی فنانسنگ کا عندیہ

اس فورم پر ونڈ پاور اور سولر پاور کے 13 منصوبوں کا ایس آئی ایف سی کی نچلی سطح پر، جہاں حاصر سروس کرنل بھی تعینات ہیں، جائزہ لینے کے بعد انہیں ایف آئی ایف سی کی اپیکس کمیٹی کو منظوری کے لیے بھیج دیا گیا تھا۔ بیورو کریسی نے اسے مزید جائزہ لینے کے لیے واپس بھیج دیا۔

خط میں مزید لکھا گیا ہے کہ ہمارے منصوبوں کو ایل او آئی، لینڈ، فزیبلیٹی، این ٹی ڈی سی اور سی پی پی اے جی گرڈ، نیپرا جنریشن لائسنس اور نیپرا ٹیرف کی منظوری مل چکی ہے۔ جولائی 2022 میں اس وقت کے وزیر اعظم محمد شہباز شریف کی بنائی ہوئی سات رکنی وزارتی کمیٹی نے منطوری دے دی تھی۔ کابینہ میں ان منصوبوں کی منظوری کی سمری تیار تھی تاہم بیورو کریسی نے سابق وزیر اعظم کی کوششوں پر پانی پھیر دیا۔

مصطفیٰ عبداللہ نے مزید لکھا ہے کہ پاکستان درآمد شدہ کوئلے، اور ایل این جی کے ذریعے تیار کی جانے والی مہنگی بجلی کے باعث توانائی کے بحران کا سامنا کر رہا ہے۔ ونڈ اور سولر پاور منصوبوں کے رو بہ عمل ہونے سے ملک میں توانائی کا بحران بخوبی ختم کیا جاسکے گا۔

اس خط کے ذریعے فورم نے آرمی چیف سے درخواست کی ہے کہ وہ سستی بجلی کے ان منصوبوں کی حتمی منظوری میں کلیدی کردار ادا کریں کیونکہ ان میں 60 کروڑ کی بلا واسطہ بیرونی سرمایہ کاری کی گئی ہے۔

Army Chief

Letter

WIND AND SOLAR POWER

INTERVENTION