Aaj News

پیر, دسمبر 23, 2024  
20 Jumada Al-Akhirah 1446  

لاپتا افراد، جبری گمشدگی کیس: ہم پارلیمان کو قانون سازی کرنے کا حکم نہیں دے سکتے، چیف جسٹس

ہم سمجھتے ہیں کہ ہر ادارے کو اپنی حدود میں رہنا چاہیے، چیف جسٹس
اپ ڈیٹ 02 جنوری 2024 12:43pm
We cannot order Parliament to legislate: Chief Justice - Aaj News

سپریم کورٹ میں لاپتا افراد اور جبری گمشدگی کے خلاف کیس کی سماعت جاری ہے، چیف جسٹس کا کہنا ہے کہ ہم پالیمان کو قانون سازی کا حکم نہیں دے سکتے۔

چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی کی سربراہی میں تین رکنی بنچ کیس کی سماعت کررہا ہے، سماعت براہ راست نشر کی جارہی ہے۔

سینیئر وکیل اعتزاز احسن سمیت متعدد درخواست گزاروں نے جبری گمشدگیوں کے خلاف سپریم کورٹ میں درخواستیں دائر کی تھیں۔

دوران سماعت وفاقی حکومت نے اسلام آباد ہائیکورٹ کی فیصلے کے خلاف اپیلیں واپس لے لیں۔

لاپتہ افراد کیس میں درخواستگزار خوشدل خان نے دیتے ہوئے کہا کہ عدالت حکومت کو جبری گمشدہ افراد سے متعلق قانون سازی کا حکم دے۔

جس پر جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ جبری گمشدگیوں سے متعلق کمیشن بنا تو ہوا ہے۔

چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ کون سا کمیشن بنا ہے؟ جس پر درخواستگزار نے بتایا کہ جسٹس ریٹائرڈ جاوید اقبال کی سربراہی میں کمیشن بنایا گیا لیکن اس نے اب تک کچھ نہیں کیا۔

درخواستگزار خوشدل خان نے کہا کہ عدالت حکومت کو نوٹس کرکے پوچھے لاپتہ افراد کے بارے میں قانون سازی کیوں نہیں کی؟

جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ عدالت کیسے پارلیمنٹ کو حکم دے سکتی ہے کہ فلاں قانون سازی کرو؟ آئین کی کون سی شق عدالت کو اجازت دیتی ہے کہ پارلیمنٹ کو قانون سازی کا حکم دے؟

دورانِ سماعت چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ کیا سپریم کورٹ پارلیمنٹ کو قانون سازی کا حکم دے سکتی ہے؟

چیف جسٹس نے کہا کہ ہر ادارے کواپنی حدود میں رہنا چاہیے۔

جسٹس محمد علی مظہر نے ریمارکس دیے کہ عدالت قانون سازی کا اختیار نہیں رکھتی صرف قانون کالعدم قرار دے سکتی ہے۔

اس کے بعد اعتزاز احسن کے وکیل شعیب شاہین نے اپنے دلائل شروع کیے۔

چیف جسٹس پاکستان نے شعیب شاہین کو کہا کہ آپ تو اعتزاز احسن کے وکیل نہیں ہیں۔

جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ لطیف کھوسہ کا بیٹا گرفتار ہے تو مجھے وکالت نامہ دیا گیا ہے۔

شعیب شاہین نے کہا کہ ہماری درخواست پر اعتراضات عائد کیے گئے ہیں۔

جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ اعتراضات کو خارج کرکے درخواستیں سن رہے ہیں کیونکہ یہ عوامی مفاد کا معاملہ ہے، میری غیرموجودگی میں کچھ ہوا اور میں نے واپس آتے ہی یہ درخواستیں سماعت کے لیے مقرر کی ہیں۔ ہم آفس کی جانب سے لگائے گئے اعتراضات ختم کرتے ہیں۔

چیف جسٹس نے شعیب شاہین کو کہا کہ ہم سمجھتے تھے مسنگ پرسنز کا مسئلہ اہم ہے تو کیس لگا دیا۔

عدالت نے شعیب شاہین کو کہا کہ آپ کیا چاہتے ہیں ہم کیا کریں اپنی استدعا بتائیں۔

جس پر شعیب شاہین نے کہا کہ لاپتہ افراد کمیشن اپنا کام نہیں کر سکا اور نہ کر سکتا ہے۔

چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ یہ کمیشن کب کا ہے؟ تب کس کی حکومت تھی؟ جس پر شعیب شاہین نے جواب دیا کہ 2011 میں پیپلز پارٹی کی حکومت کے دوران کمیشن بنا۔

چیف جسٹس نے کہا کہ اعتزاز احسن کیا اپنی ہی حکومت کا نوٹیفکیشن معطل کرنا چاہتے ہیں؟

شعیب شاہین نے ’معصوم لوگوں پر ظلم‘ کا ذکر کیا تو چیف جسٹس نے مثال دیتے ہوئے کہا کہ شیخ رشید خود کتنی بار وزیر رہ چکے؟ کیا آپ شیخ رشید کو معصوم لوگوں کی کیٹگری میں رکھیں گے؟ فرخ خبیب، عثمان ڈار، صداقت عباسی یہ لوگ کون ہیں؟ فرخ حبیب، صداقت عباسی وغیرہ سب سیاسی ورکرز ہیں۔

وکیل شعیب شاہین نے کہا کہ یہ تمام افراد لاپتہ رہے اور واپس آکر پارٹی بدل لی۔

چیف جسٹس نے کہا کہ کیا آپ اس بات پر رنجیدہ ہیں لوگ پی ٹی آئی چھوڑ گئے؟ کیا ہم انہیں یہ کہیں کہ یہ واپس پی ٹی آئی میں آجائیں؟

شعیب شاہین نے کہا کہ اعتزاز احسن نے آل اوور صورت حال پر درخواست دائر کی۔

چیف جسٹس نے کہا کہ یا تو کسی کو اعتزازاحسن کے سامنے اٹھایا گیا ہو تو وہ بات کرے، یا کوئی خود آکر کہے مجھے اغوا کیا گیا تھا تو ہم سنیں، آپ ان کی جگہ کیسے بات کرسکتے ہیں؟ شعیب شاہین کیا آپ ان کے گواہ ہیں؟

چیف جسٹس نے پوچھا کیا اعتزاز احسن کے سامنے ان تمام افراد کو اٹھایا گیا؟ کیا پھر ان افراد نے کہا کہ آپ ہمارا کیس لڑیں؟ یہ تمام لوگ اثروسوخ والے ہیں۔

جس پر شعیب شاہین نے کہا کہ ظلم تو اثرورسوخ رکھنے والوں پر بھی ہوسکتا ہے۔

چیف جسٹس نے شعیب شاہین سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ ڈائیلاگ بازی یہاں نا کریں، آپ نے پیپلز پارٹی یا مسلم لیگ ن کا ذکر نہیں کیا، آپ کی پوری درخواست ایک سیاسی جماعت کے گرد گھومتی ہے، آرٹیکل 184 تھری کے تحت ایک سیاسی مسئلے کو سنیں؟

چیف جسٹس نے کہا کہ سیاسی پوائنٹ اسکورنگ نہ کریں، لاپتہ افراد کا کیس سنجیدہ نوعیت کا ہے، عدالت کا مذاق بنانے کی اجازت نہیں دیں گے، انگریزی محاورہ ہے کہ اگرآپ حرارت برداشت نہیں کرسکتے تو کچن میں بھی نہ جائیں۔

شعیب شاہین نے کہا کہ پورا پاکستان گواہ ہے۔ جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ آپ ایسے ڈائیلاگ نہ بولیں، آپ نے صرف ایک پارٹی کے لوگوں کا ذکر کیا، یہ سب پارٹی چھوڑ گئے اس کا ہمارے پاس کوئی حل نہیں، ہم اس معاملے کو بہت سیریس لینا چاہتے ہیں۔

جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ بلوچ لاپتہ افراد کا معاملہ بھی ہم نے درخواست میں اٹھایا ہے۔

چیف جسٹس نے کہا کہ سیاسی مقاصد کے لیے عدالت کو استعمال نہیں ہونے دیں گے، اگر آپ ہمارا مذاق اڑائیں گے تو ہم اس کی اجازت نہیں دیں گے۔

چیف جسٹس نے شعیب شاہین سے پوچھا محمد خان بھٹی کون ہے؟ اور آپ سے کیا تعلق ہے؟ جس پر شعیب شاہین نے کہا کہ پہلے یہ لاپتہ تھے اب پیش کردیے گئے ہیں۔

چیف جسٹس نے کہا کہ آپ کس منہ سے یہ بات کر رہے ہیں؟ ہم سیاسی پوائنٹ اسکورنگ کی اجازت نہیں دے سکتے۔

شعیب شاہین نے کہا کہ شیریں مزاری نے اس معاملے پر بل پیش کیا جو غاٸب ہوگیا۔

چیف جسٹس نے کہا کہ عجیب بات ہے وفاقی وزیر کہہ رہا ہے اس کا بل ہی غائب کردیا گیا۔

چیف جسٹس نے کہا کہ کیا اس معاملے پر شیریں مزاری نے استعفا دیا؟ مسٸلہ یہ ہے کہ جب سب عہدے پر ہوتے ہیں تو ذمہ داری کوٸی نہیں اٹھاتا۔

چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ بل کیا سینیٹ سے غاٸب ہوا تھا؟ چیٸرمین سینیٹ کون ہیں کس کے ووٹ سے بنے تھے؟

شعیب شاہین نے بتایا کہ سینیٹرز کے ووٹ سے صادق سنجرانی چیٸرمین سینیٹ بنے تھے۔ جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ آپ نام لیں کس پارٹی کے ووٹ سے بنے تھے؟

شعیب شاہین نے کہا کہ پیپلز پارٹی اور پی ٹی آٸی کے اتحاد سے وہ چیٸرمین سینیٹ بنے تھے۔

جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ آپ کی پارٹی کے ووٹ سے بنے چیٸرمین سینیٹ نے آپ کا بل گم کردیا، کیا آپ نے اس پر انہیں ہٹانے کی درخواست کی؟ آپ نے چیٸرمین سینیٹ پر ایک سنجیدہ الزام لگایا۔

شعیب شاہین نے کہا کہ میں نے درخواست میں اس معاملے پر کوٸی استدعا نہیں کی، یہ سارا واقعہ ایک بیک گراونڈ کے طور پر لکھا ہے۔

چیف جسٹس نے کہا کہ آپ نے بل غاٸب ہونے کا ذکر کیا تو پھر صادق سنجرانی کو فریق تو بنائیں، بل اگرغائب ہوا ہے تو اس کا مطلب ہے بہت بڑی سازش ہوئی ہے۔

چیف جسٹس نے کہا کہ یہ کیس تو لاپتہ افراد سے لاپتہ بل کا کیس بن گیا ہے، ہمیں وہ بل دکھا تو دیں۔

جس پر شعیب شاہین نے کہا کہ وہ بل میرے پاس نہیں ہے۔

چیف جسٹس نے کہا کہ ہم نے وہ بل یہاں سے پرنٹ نکلوا لیا ہے، یہ بل تو شیخ رشید احمد کا تھا۔

چیف جسٹس کی جانب سے استفسار کیا گیا کہ آپ کی پٹیشن میں عمران ریاض اور ارشد شریف کا نام تو لیا گیا ہے جو یہ نہیں بتا رہے کہ انہیں کون لے گیا تھا مگر آپ کی جانب سے ان کا نام نہیں لیا گیا جو بتا رہے ہیں کو انہیں کون لے گیا تھا۔

چیف جسٹس نے کہا کہ آپ نے عمران ریاض کا ذکر بھی کیا، یہ کون ہے؟ کیا عمران ریاض اب بھی لاپتہ ہے؟

جس پر شعیب شاہین نے کہا کہ اب لاپتہ نہیں مگر جب گھر واپس آئے تو حالت غیر تھی۔

چیف جسٹس نے کہا کیا عمران ریاض اثرورسوخ والے نہیں؟

چیف جسٹس نے کہا کہ کیا مطیع اللہ جان اغوا نہیں ہوئے تھے؟ ان کا نام کیوں شامل نہیں کیا؟ مطیع اللہ جان کس حکومت میں غائب ہوئے تھے؟

شعیب شاہین نے بتایا کہ مطیع اللہ جان کےغائب ہونے کے وقت پی ٹی آئی کی حکومت تھی۔

چیف جسٹس نے شعیب شاہین کو کہا کہ آپ کیوں نہیں کھڑے ہوئے مطیع اللہ اور اسد طور کے لیے؟ زیادتی کسی کے ساتھ بھی ہو اس کےساتھ کھڑا ہونا چاہیے، ہمارے لیے ہر شہری محترم ہے وہ چاہے کسی بھی پارٹی سے ہو۔

چیف جسٹس نے کہا کہ مطیع اللہ جان اور اسد طور نے تو نہیں کہا کہ وہ شمالی علاقہ جات گئے۔ جس پر شعیب شاہین نے کہا کہ میں مطیع اللہ جان کے کیس میں پیش ہوا تھا۔

چیف جسٹس نے کہا کہ میں نے ایک بینچ میں صحافیوں کے کیس کا نوٹس لیا، کس کی حکومت تھی جس نے آکر کہا یہ نوٹس نہیں لے سکتے۔

جسٹس مسرت ہلالی نے استفسار کیا کہ آپ کیا پک اینڈ چوز کر رہے ہیں؟

چیف جسٹس نے کہا کہ ابھی جو بلوچ طلباء کا احتجاج چل رہا ہوا اس کا آپ کی پٹیشن میں ذکر نہیں۔

جس پر شعیب شاہین نے کہا کہ بلوچ طلباء والے معاملہ پر متفرق درخواست دے دیتا ہوں۔

چیف جسٹس کی جانب سے کیس میں وکیل شعیب شاہین سے سوال کیا گیا کہ کیا آپ کی جانب سے کوئی ایسی لسٹ لگائی گئی ہے کہ کتنے لوگ لا پتہ ہیں اور کتنے بازیاب ہوئے ہیں؟

اُن کا مزید کہنا تھا کہ ہمیں نہیں پتہ کہ کون کتنے سال سے لاپتہ ہے اور اُس وقت کس کی حکومت تھی، ہم نے آخر سوال کس سے کرنا ہے، تفصیل تو ہو کون کب کہاں سے لاپتہ ہوا۔

عدالت کے ان ریمارکس کے جواب میں شعیب شاہین کا کہنا تھا کہ اس بارے میں تو جواب کمیشن دے گا کہ کون کہاں سے کب اور کیسے لاپتہ ہوا۔

اُن کا مزید کہنا تھا کہ کمیشن کے سربراہ تو جسٹس ریٹائرڈ جاوید اقبال ہیں ہم تو چاہتے ہیں کہ انٹرنیشنل لیول کا کمیشن بنے۔

عدالت کی جانب سے ریمارکس دیے گئے کہ کیا آپ کی جانب سے کمیشن کو لکھا گیا کہ لاپتہ افراد کی فہرست جاری کی جائے؟ اگر آپ نے ایسا کیا ہوتا تو ہمارے لیے بھی کام آسان ہو جاتا اور ہم مسئلے کے حل کا جانب جا سکتے تھے۔

عدالت کی جانب سے استفسار کیا گیا کہ ’ایک وفاقی وزیر اگر اپنے بل کی حفاظت نہیں کر سکتا تو وہ کسی کے حقوق کے لیے کیا کرے گا؟‘

عدالت میں صادق سنجرانی کے پہلے انتخاب اور عدم اعتماد کے تذکرے بھی ہوئے۔

چیف جسٹس نے کہا عدم اعتماد ناکام کیسے ہوا تھا، کیا ووٹ بھی لاپتہ ہو گئے تھے۔

چیف جسٹس نے کہا کہ کیا یہ کیس لاپتہ افراد کا ہی ہے یا لاپتہ چیزیں بھی آجائیں گی، بل بھی لاپتہ ہوگیا ووٹ بھی لاپتہ ہو گئے۔

چیف جسٹس نے کہا کہ ہم نگران حکومت کو صرف ان کے دور میں گم ہوئے لوگوں کا ذمہ دار ٹھہرا سکتے ہیں، ہم لاپتہ افراد کے مسئلے کو ہمیشہ کے لیے حل کرنا چاہتے ہیں، لاپتہ افراد میں کئی وہ لوگ بھی آ جاتے ہیں جو جہادی تنظیموں کے ساتھ چلے جاتے ہیں، یہ بھی دنیا میں کہیں نہیں ہوتا کہ تنظیمیں جوائن کرلو، آپ کو پتہ ہے لوگ قتل ہوئے ہیں، جج قتل ہوئے ہیں، آپ کو پتہ ہے دو عدالتوں کے چیف جسٹس رہنے والے نور محمد مسکان زئی کو قتل کیا گیا۔

چیف جسٹس نے اٹارنی جنرل پاکستان بھی آئندہ سماعت پر طلب کرلیا۔

چیف جسٹس نے کہا کہ اعتزاز احسن کی درخواست میں سیاست جھلک رہی ہے، ہمیں پاکستان کو اندرونی طور پر مضبوط کرنا ہے، اب اس مسئلے کا حل نکالنا ہے۔

عدالت نے سماعت کل تک کیلئے ملتوی کردی۔

SUPREME COURT OF PAKISTAN (SCP)

Live Proceedings