کرپشن کیس میں فواد چوہدری کا 6 روزہ جسمانی منظور
کرپشن کیس میں گرفتار سابق وفاقی وزیر فواد چوہدری کا 6 روزہ جسمانی ریمانڈ منظور کرلیا گیا۔
احتساب عدالت اسلام آباد کے جج محمد بشیر نے ہفتہ کو فواد چوہدری کے خلاف کیس کی سماعت کی، اس موقع پر اسپیشل پراسیکیوٹر عرفان بھولا، سہیل عارف، تفتیشی افسر اور وکیل صفائی فیصل چوہدری عدالت میں پیش ہوئے۔
فواد چوہدری کو احتساب عدالت اسلام آباد پیش کیا گیا جہاں پراسیکیوٹر کی جانب سے ان کے مزید دس روزہ ریمانڈ کی استدعا کی گئی۔
دوران سماعت پراسیکیوٹر نے عدالت سے کہا کہ چودہ روزہ ریمانڈ کی استدعا تھی لیکن دس دن کا دیا گیا، مختلف پہلوؤں پر تفتیش کی گئی، کچھ انہوں نے بھی اقرار کیا۔
عدالت نے پراسیکیوٹر کی استدعا پر فواد چوہدری کا 6 روزہ جسمانی ریمانڈ منظور کرتے ہوئے 5 جنوری کو دوبارہ پیش کرنے کا حکم دیا۔
عدالت نے پراسیکیوٹر کو حکم دیا کہ فواد چوہدری سے تفتیش مکمل کرلیں اور ان کی وکلاء سے ملاقات بھی کرادیں۔
اس سے قبل پراسیکیوٹر کا عدالت میں کہنا تھا کہ 8 کنال اراضی فواد چوہدری کے نام منتقل ہوئی، ریکارڈ کے مطابق ادائیگی ٹھیکیدار نے کی، یہ اپنی ادائیگی کے ثبوت دینا چاہتے ہیں جو ابھی نہیں دیے، اس لیے مزید تفتیش کرنی ہے۔
پراسیکیوٹر نے بتایا کہ متعلقہ ٹھیکیدار اور ایکسیئن کو دو جنوری کو بلایا ہے، مختلف ریکوری بھی کرنا ہے، مزید دس دن کا ریمانڈ دیا جائے۔
پراسکیوٹر نے مزید کہا کہ مشکوک ٹرانزکشنز سمیت دیگر شواہد اکٹھے کرنا ہیں۔
جج نے فواد چوہدری سے استفسار کیا کہ ان کا رویہ کیسا رہا؟ جس پر انہوں نے جواب دیا کہ دس دن کا ریمانڈ دیا، اچھا رویہ رہا، پڑھے لکھے لوگ ہیں، جب آپ کے سامنے آتے ہیں پہلے آپ اپنا دائرہ اختیار دیکھتے ہیں۔
فواد چوہدری نے کہا کہ وارنٹ میں چار الزامات ہیں، پہلا الزام یہ کہ بطور وفاقی وزیر منصوبہ میں مداخلت کی، یہ پراجیکٹ پی ایس ڈی پی کا ہے ہائی وے کا تو ہے ہی نہیں، پہلا الزام ہی ثابت کردیں، میں یہاں بھی دلائل دے رہا ہوں کہ مداخلت نہیں کرسکتا۔
انہوں نے کہا کہ بطور سیاست دان میرا کام عوام اور علاقہ کی ڈیمانڈ حکومت تک پہنچاؤں، اگر یہی نہ کر سکوں تو میرا کیا فائدہ۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ نیب والے پڑھے لکھے لوگ ہیں، ان کی اپنی فائل میں نہیں دیکھا کہ دائرہ اختیار کیا ہے، یہ کل آٹھ منصوبے تھے، صوبائی حکومت نے بھی منظوری دی، نیب صوبائی حکومت کی انکوائری نہیں کرسکتا، نیب کے پاس اختیار ہی نہیں انکوائری کا۔
فواد چوہدری نے کہا کہ دوسرا الزام ہے مداخلت کا، میں صوبائی حکومت میں مداخلت کیسے کرسکتا، میں کوئی بادشاہ ہوں کہ ایسا کروں گا، پراسیکیوشن کو شاید موقع نہیں ملا یہ دیکھنے کا۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ تیسرا الزام ٹھیکیدار سے متعلق ہے، اس کا تو ٹھیکہ ہی نہیں ہوا، یہ تو بغیر ٹھیکہ گورنمنٹ سے گورنمنٹ ایف ڈبلیو او کو چلا گیا تھا، اس کا ٹینڈر ہی جاری نہیں کیاگیا، کسی نے کہا کہ اس نے ٹھیکہ لینا تھا اور ہمارے خاندان والوں نے اس سے پیسہ لے لیا، مجھ پر بھی اٹھارہ لاکھ کا الزام لگایا گیا ہے۔
فواد چوہدری نے کہا کہ مجھے پہلا نوٹس اڈیالہ جیل میں ملا، میں نے کہا کہ مجھ پر الزام کا بتایا جائے اور وکلاء سے ملاقات کرائی جائے، پراسیکیوٹر اپنی حدود دیکھ لیں، مجھے ریمانڈ دیا جائے یا جوڈیشل کیا جائے یا پھر دائرہ اختیار پر فیصلہ دیا جائے۔
پراسیکیوٹر نے کہا کہ ترمیم کے بعد ہمیں اختیار ملا ہے، آفس ہولڈر کے خلاف الزامات کی انکوائری کرسکتے ہیں، ریمانڈ کا مقصد کیس کا بنانا ہی نہیں، حقائق دیکھنا ہوتے ہیں۔ ہمارے پاس شواہد ہیں کہ پچاس لاکھ لیے گئے۔
عدالت نے استفسار کیا کہ ٹھیکیدار کون ہے؟ جس پر پراسیکیوٹر نے جواب دیا کہ محمد علی ٹھیکیدار ہے، ابھی ایف ڈبلیو او کام کر رہا ہے۔
پراسیکیوٹر نے کہا کہ ہمار الزام ہی یہی ہے کہ ٹھیکہ کی بنیاد پر پیسے لیے گئے، استدعا ہے کہ ریمانڈ دیا جائے۔
فواد چوہدری کے وکیل فیصل چوہدری نے کہا کہ میرے پاس ہائیکورٹ کا آرڈر ہے، 17 جنوری تک باہر ہوں، پی سی ون کی تاریخ نہیں، زمین کا موقع نہیں کہ کہاں ہے، تفصیلات نہیں دینی تو لکھ دیں کہ فراڈ کیس ہے۔ پرسوں بندہ بلایا ہوا ہے اور ریمانڈ دس دن کا مانگ رہے ہیں، ٹرانزیکشن ریکارڈ انہوں نے خود لیا ہمیں نہیں معلوم کیا ہے۔
پراسیکیوٹر نے کہا کہ ملزم کا کہنا ہے یہ ادائیگی اپنے پیسوں سے کی، ان کو سہولت دی، ریکارڈ دے دیں۔
وکلاء کے دلائل مکمل ہونے پر عدالت نے ریمانڈ کی استدعا پر فیصلہ محفوظ کرلیا تھا۔
Comments are closed on this story.