Aaj News

اتوار, دسمبر 22, 2024  
19 Jumada Al-Akhirah 1446  

ہمارا پہلا مطالبہ ہے کہ اقوام متحدہ کی کمیٹی بلوچستان بلائی جائے، ماہ رنگ بلوچ

دوسرا مطالبہ ماورائے عدالت قتل بند کیا جائے، سربراہ بلوچ یکجہتی کمیٹی
شائع 26 دسمبر 2023 11:06pm

بلوچ یکجہتی کمیٹی کی سربراہ ماہ رنگ بلوچ کا کہنا ہے کہ ہمارا پہلا مطالبہ یہ ہے کہ اقوام متحدہ کی فیکٹ فائنڈنگ کمیٹی بلوائی جائے جو خود انسانی حقوق کی خلاف ورزی کا نوٹس لے، اور بلوچستان میں ماورائے عدالت قتل بند کئے جائیں۔

آج نیوز کے پروگرام ”اسپاٹ لائٹ“ میں بات کرتے ہوئے بلوچ یکجہتی کمیٹی کی سربراہ ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ کا کہنا تھا کہ ہمارے 100 کے قریب طلبا ہیں جنہیں ابھی تک رہا نہیں کیا گیا، اس پر ہمارے وکلا کام کررہے ہیں۔

ماہ رنگ بلوچ نے کہا کہ ہمیں جو تشویش ہے وہ ڈاکٹر ظہیر بلوچ کے حوالے سے ہے جو قائد اعظم یونیورسٹی کے اسکالر ہیں وہ غائب ہیں، جب کہ ان کی فوٹیج موجود ہے جس میں 4 دن قبل پولیس کی وین انہیں لے کر جارہی ہے، ایک اور فوٹیج میں ان کا نام لے کر دیگر افراد سے الگ کیا جارہا ہے، لیکن انہیں ابھی تک کسی عدالت میں پیش نہیں کیا گیا۔

ماہ رنگ کا کہنا تھا کہ پولیس کی جانب سے گرفتار کئے گئے افراد میں لاپتہ افراد کے لواحقین بھی موجود ہیں، بلوچستان یونیورسٹی کا طالب علم سہیل بلوچ اور اس کا بھائی فصیح، غلام فاروق کا بھائی ایوب بھی پولیس حراست میں ہیں۔

بلوچ رہنما نے کہا کہ اسلام آباد پولیس نے جو سب سے پہلے غلط بیان دیا اس میں ان کا کہنا تھا کہ کسی خاتون کو گرفتار نہیں کیا گیا، لیکن بعد میں فوٹیجز میں پوری دنیا نے دیکھا کہ کس طرح خواتیں کو گھسیٹا گیا، ہم نے انہیں بارہا کہا کہ یہ کسی بھی قانون میں درست یا جائز نہیں ہے، جو تحریک جبری گمشدگی اور ماورائے عدالت قتل کے خلاف چلی تھی اسے سبوتاژ کرنے کے لئے حربے استعمال کئے جارہے ہیں۔

ماہ رنگ بلوچ کا کہنا تھا کہ گرفتار کئے گئے طالب علم وہ افراد ہیں جنہیں ان کے والدین نے بڑی محنت سے اور اپنے گھر بیچ کر یہاں تعلیم کے حصول کے لئے بھیجا ہے، یہاں بیٹھے مظاہرین مجھے کہتے ہیں کہ انہوں نے پہلے سے گرفتار ہمارے بیٹے تو واپس نہیں کئے، مزید بیٹے گرفتار کرلئے۔

ماہ رنگ بلوچ نے کہا کہ 100 کے قریب ایسے افراد جن میں طلبہ اور لاپتہ افراد کے لواحقین شامل ہیں اور پہلے دن سے اس مارچ کا حصہ تھے، ان کا تاحال کچھ پتہ نہیں کہ وہ کہاں ہیں، ان افراد میں کوئی خاتون نہیں۔ ان افراد میں مزید تشویش پیدا ہوئی ہے کہ ایک شخص کا بھائی لاپتہ ہے اور اب وہ بھی لاپتہ ہوگیا ہے۔

بلوچ یکجہتی کمیٹی کی سربراہ نے کہا کہ جہاں اس وقت مظاہرین موجود ہیں وہاں چاروں طرف کیمرے اور پولیس کھڑی ہے، جب گرفتاریاں ہوئی تھیں اس رات بھی جیسے ہی رات کے 3 بجے کیمرے بند ہوئے تو کچھ نقاب پوش مسلح افراد آئے اور کیمپ پر حملہ آور ہوگئے، جس کی فوٹیج ہمارے پاس موجود ہے، خواتیں چیخ رہی تھیں اور ہمارے مرد ان افراد کے پیچھے بھاگ رہے تھے، ہم نے پولیس سے کہا کہ آپ ان کو کیوں نہیں روک رہے تو انہوں نے کہا یہ ہمارے دائرہ اختیار میں نہیں ہے۔

ماہ رنگ بلوچ کا کہنا تھا کہ یہ تحریک اب یہاں رکنے والی نہیں ہے، ہم نے پولیس سے بارہا کہا کہ ہمارا آپ سے کوئی معاملہ نہیں ہے، یہ تحریک اسلام آباد میں 30 دن سے اور بلوچستان میں دہائیوں سے چل رہی ہے۔ بلوچستان میں میڈیا بلیک آؤٹ ہے، ریاستی ادارے ہمارے صوبے میں قانون پر عمل نہیں کررہے، اقوام متحدہ کا ورکنگ گروپ گزشتہ 10 سال سے پاکستانی حکومتوں کو خطوط لکھ رہی ہیں، اور کہہ رہی ہیں کہ ہمیں بلوچستان سے بہت سے کیسز رپورٹ ہوئے ہیں، ہمیں این او سی دیا جائے، لیکن پاکستان انہیں این او سی نہیں دے رہا۔

ہمارا سب بڑا مطالبہ یہ ہے کہ اقوام متحدہ کی فیکٹ فائنڈنگ کمیٹی بلوچستان میں بلوائی جائے اور وہی انسانی حقوق کی خلاف ورزی کا نوٹس لے، اور دوسرا مطالبہ ماورائے عدالت قتل بند کیا جائے۔

Mahrang Baloch