جرمنی میں اسلاموفوبیا، قانونی طور پر مقیم شامی باشندوں کو تفتیش کا سامنا
جرمنی میں شام سے تعلق رکھنے والے افراد کو اس وقت عجیب صورت حال کا سامنا کرنا پڑا جب کوہ پیمائی کے دوران کسی مقامی باشندے نے انہیں غیر قانونی تارکین وطن سمجھ کر پولیس کو طلب کرلیا۔
اسلامو فوبیا اور تارکین وطن کے لیے تنفر کے باعث جرمنی میں تارکین وطن اور بالخصوص مسلمانوں کو شدید مشکلات کا سامنا ہے۔ چند برسوں کے دوران جرمنی میں آباد غیر ملکیوں کو شک کی نظر سے دیکھنے کا رجحان تیزی سے پروان چڑھا ہے۔
جن شامی باشندوں کو غیر قانونی تارکین وطن سمجھ لیا گیا وہ 7 سال سے ایک رجسٹرڈ کلب کے ذریعے جرمنی بھر میں کوہ پیمائی کے علاوہ جنگلوں اور آبشاروں کی سیر کرتے آئے ہیں۔
رجسٹرڈ کلب کے شامی ارکان حال ہی میں ٹریکنگ کے لیے جرمنی کی مشرقی ریاست سیگزنی گئے۔ یہ ان کے لیے نیا علاقہ تھا۔ اس کلب کے ارکان، جن میں جرمنی میں مستقل رہائش کے اجازت یافتہ شامی باشندے بھی شامل ہیں،سیگزن سوئٹزر لینڈپارک کا ایک حسین حصہ دیکھنے پہنچے تو پولیس کو ہنگامی کال کی گئی۔ کال کرنے والے نے خیال ظاہر کیا کہ چند غیر قانونی تارکین وطن علاقے میں گھس آئے ہیں۔ کال کرنے والے کا خیال تھا کہ ان لوگوں کو چیک جمہوریہ کی سرحد کے ذریعے جرمنی میں گھسنے کا موقع ملا تھا۔
کلب کے ارکان جب کوہ پیمائی کے بعد تھکے ہارے اپنے ہاسٹل پہنچے تو وہاں پولیس کو منتظر پایا جو تفتیش کے لیے تیار ہوکر آئی تھی۔
ہائکنگ ٹرپ کے منتظمین میں شامل ایہام طٰہان نے کہا کہ یہ سب بہت عجیب تھا کیونکہ ہم تو وہی کر رہے تھے جس کے خود جرمن بھی بہت شوقین ہیں یعنی کوہ پیمائی اور دشت نوردی۔ ان کا کہنا تھا کہ جرمن باشندے فطری نظاروں کے دلدادہ ہیں۔ ایسے میں کسی کو ہمارے بارے میں کسی بدگمانی میں مبتلا نہیں ہونا چاہیے تھا۔
چار روزہ ہائیکنگ ٹرپ کے لیے 55 افراد نے رجسٹریشن کرائی تھی۔ مشرقی جرمنی کا یہ علاقہ خوبصورت قدرتی مظاہر کے لیے غیر معمولی شہرت کا حامل ہے۔
طٰہان کا کہنا ہے کہ شاید کسی نے پولیس کو بتایا تھا کہ پناہ گزین یا تارکین وطن دکھائی دینے والے چند افراد علاقے میں گھوم رہے ہیں۔ سیر کرنے والوں میں سے بیشتر کا تعلق شام سے ہے اور وہ عربی میں گفتگو کر رہے تھے۔ شاید اسی لیے کسی کو غلط فہمی ہوگئی۔
Comments are closed on this story.