سارہ شریف کے بہن بھائیوں کو واپس لے جانے میں برطانیہ ناکام، بچے دادا کے سپرد
برطانیہ میں مبینہ قتل کی جانے والی 10 سالہ بچی سارہ شریف کے بہن بھائیوں کی کسٹڈی کے معاملے پر برطانیہ اورپاکستان کی عدالتوں میں پیچیدہ قانونی صورتحال پیدا ہوگئی ہے۔
تاہم کئی ہفتوں بعد اس کیس کی رپورٹنگ پر پابندی ہٹائی گئی ہے اور یہ بات سامنے آئی ہے کہ برطانوی حکام کوششوں کے باوجود بچوں کو تاحال پاکستان سے واپس برطانیہ نہیں لے جاسکے۔
جہلم کے علاقہ کڑی جنجیل سے تعلق رکھنے والے ملک عرفان کی پولش خاتون سے بیٹی سارہ شریف اگست میں اپنے گھر میں مردہ پائی گئی تھی۔ عرفان اپنی پاکستانی بیوی، اپنے بھائی اور پانچ بچوں کے ساتھ پاکستان فرار ہوگئے لیکن پولیس کے دباو کے بعد انہیں واپس جانا پڑا جہاں ان تینوں کو گرفتار کرلیا گیا۔
جہلم پولیس نے سارہ کے بہن بھائیوں کو عرفان کے والد یعنی بچوں کے دادا کے گھر سے بازیاب کیا تھا جو شروع میں چائلڈ کیئر کی تحویل میں دے دیئے گئے تھے۔
یہ کیس لندن ہائیکورٹ میں زیر سماعت ہے۔سارہ کے بہن بھائیوں کو عدالت کا وارڈ بناتے ہوئے برطانوی عدالت نے انہیں پاکستان سے برطانیہ واپس بھیجنے کاحکم دیا ہے۔ فیصلے کے بعد سرے کاؤنٹی کونسل نے بچوں کی برطانیہ واپسی کا عمل محفوظ بنانے کیلئے پاکستان کے صوبہ پنجاب کے دارالحکومت لاہور کے ہائیکورٹ میں درخواست دائر کی ہے۔
اب اس اوورلیپنگ کیسز ( دو ممالک یا مختلف عدالتوں میں زیرسماعت ایک ہی نوعیت کا مقدمہ) یہ فیصلہ کیا جانا ہے کہ پاکستان میں موجود سارہ کے بہن بھائی کہاں رہیں گے۔
اس حوالے سے رپورٹنگ پر پابندی عائد تھی کیونکہ لندن میں معاملے پر قانونی کارروائی جاری ہے تاہم برطانوی نشریاتی ادارے کی صحافی لوئیس ٹِکل اور ہننا سمرز اور پی اے میڈیا کی درخواست کے بعد اس پابندی کو ہٹا دیا گیا ہے۔
بی بی سی کے مطابق میڈیا تنظیموں کی جانب سے کیس سے متعلق رپورٹ کرنے کی عدالتی اجازت کے بعد اب معاملے کے متعلق اطلاع دی جا سکتی ہے۔
بچے کہاں ہیں؟
عرفان ملک کے پاکستان آنے کے بعد پانچ ہفتوں تک یہ بات معمہ بنی رہی کہ آخر یہ خاندان کہاں ہے۔ پھر پاکستان پولیس نے بچوں کے دادا محمد شریف کے گھر پر چھاپہ مارکربچوں کو ڈھونڈ نکالا جو پاکستان واپسی کے بعد سے دادا کے پاس مقیم تھے۔
جہلم پولیس نے عرفان شریف کے پانچ بچوں کو تحویل میں لیکرمنگل 12 ستمبر کوعدالت میں پیش کیا تھا۔سنئیر سول جج کے حکم پر بچوں کو چائلڈ پروٹیکشن بیورو لاہوربھیجا گیا۔
تاہم بچوں کے دادا نے پاکستان کی عدالتوں کے ذریعے ان کی مکمل تحویل کے لیے لڑنا شروع کیا۔ 19 اکتوبر کو سرے کنٹری کونسل نے لاہور ہائیکورٹ میں اپیل کی کہ انہیں ایک سے 13 سال کی عمر کے سارہ کے بہن بھائیوں کو برطانیہ واپس لانے کی اجازت دی جائے۔
لیکن پاکستانی جج نے چیمبر میں تمام فریقین سے بات کرنے کے بعد بچوں کو ان کے دادا کی عبوری تحویل میں دے دیا، تب سے اب تک دادا کی تحویل میں ہیں۔
والد اور سوتیلی والدہ کی روپوشی
ملک عرفان نے 2009 میں برطانیہ میں پولش خاتون اوگلا سے شادی کی جس سے ایک بیٹی اور بیٹے کی پیدائش ہوئی۔ سال 2017 میں عرفان نے اوگلا کو طلاق دے دی۔ طلاق کے بعد سارہ اور اس کے بھائی کو والد کی تحویل میں دے دیا گیا تھا۔
ملک عرفان اپنی دوسری بیوی بینش بتول اور بچوں کے ساتھ سرے کے علاقہ میں شفٹ ہوا جہاں 10گست 2023 کو بچی کے مبینہ قتل کا واقعہ پیش آیا۔
10 سالہ پاکستانی نژاد سارہ شریف برطانیہ کے شہر ووکنگ میں اپنے گھر پرمردہ پائی گئی تھی۔ اس روز ملک عرفان بیوی بچوں کے ساتھ پاکستان روانہ ہوگئے۔ تاہم اسلام آباد ایئرپورٹ پہنچ کر انہوں نے برطانوی پولیس کو فون کیا اور بچی کے حوالے سے بتایا۔
عرفان اپنی 29 سالہ اہلیہ بینش بتول اور اپنے 28 سالہ بھائی فیصل ملک کے ساتھ برطانیہ میں پوچھ گچھ سے بچنے کیلئے اسلام آباد پہنچے تھے۔
ستمبر کے دوسرے ہفتے میں بینش بتول نے اپنے شوہرعرفان شریف کے ساتھ ایک ویڈیو شیئرکرتے ہوئے دعویٰ کیا تھا کہ سارہ کی موت معمول کا واقعہ تھا۔ بینش کے مطابق پاکستان میں ہماری فیملی کو ہراساں کیا جارہا ہے، ہم اس لیے چھپے ہوئے ہیں کہ پولیس یا تشدد کرے گی یا پھر ہمیں ماردے گی۔
سوتیلی والدہ کا مزید کہنا تھا کہ وہ قتل کی تحقیقات میں برطانوی اتھارٹیز سے بھی تعاون کرنے کےلیے تیارہیں۔
برطانیہ واپسی اورگرفتاری
سارہ کے والدہ، سوتیلی والدہ اور چچا پاکستان میں روپوشی کے بعد برطانیہ پہنچے جہاں انھیں گرفتار کر لیا گیا۔
اُن پر سارہ کے قتل، بچی کی موت کا سبب بننے یا اس کی اجازت دینے کا الزام عائد کیا گیا تھا لیکن تینوں نے جرم کے ارتکاب سے انکار کیا ہے۔
Comments are closed on this story.