Aaj News

اتوار, دسمبر 22, 2024  
19 Jumada Al-Akhirah 1446  

عدالت نے 50 بلوچ خواتین کی رہائی کا حکم دے دیا، 162 مظاہرین کی ضمانت منظور

162 افراد کو آج جوڈیشل مجسٹریٹ مرید عباس کی عدالت میں پیش کیا گیا
اپ ڈیٹ 23 دسمبر 2023 12:56pm
بلوچ سماجی کارکن سائرہ بلوچ دوران حراست میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے
بلوچ سماجی کارکن سائرہ بلوچ دوران حراست میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے

اسلام آباد پولیس نے عدالتِ عالیہ کے حکم کی روشنی میں 50 بلوچ خواتین کو رہا کر دیا ہے۔

بلوچ سماجی کارکن سائرہ بلوچ کا کہنا ہے کہ رہائی پانے کے بعد خواتین ابھی بھی اسلام آباد میں ہی ہیں اور ہفتے کو دوبارہ نیشنل پریس کلب کے سامنے اپنا احتجاجی کمیپ بھی لگائیں گی۔

رہائی پانے والی خواتین میں بلوچوں کے تحفظ کی سرگرم کارکن ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ بھی شامل ہیں۔

دوسری جانب ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن کورٹ اسلام آباد نے بلوچ لانگ مارچ کے دوران گرفتار 162 افراد کی ضمانتیں منظور کرلی ہیں، عدالت نے پانچ پانچ ہزار روپے کے ضمانتی مچلکوں کے عوض ضمانتیں منظور کیں ۔

قبل ازیں، اسلام آباد پولیس کی جانب سے جاری ایک بیان میں کہا گیا تھا کہ ’نگراں وزیراعظم پاکستان اور وزارتی کمیشن کی ہدایات پر 162 گرفتار مظاہرین کی درخواست ضمانت دائر کردی گئی ہے۔

ترجمان اسلام آباد پولیس کا کہنا تھا کہ یہ ضمانتیں ایپکس لاء ایسوسی ایٹس نے رضاکارانہ طور پر دائر کی ہیں۔ 162 افراد کو آج جوڈیشل مجسٹریٹ مرید عباس کی عدالت میں پیش کیا جائے گا۔

سائرہ بلوچ نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ انہیں تھانے کے اندر بھی تشدد کا نشانہ بنایا گیا، تشدد کرنے والوں میں مرد پولیس اہلکار بھی شامل تھے۔

بی بی سی کے مطابق سائرہ بلوچ نے دعویٰ کیا کہ پولیس حکام انہیں سنگین نتائج کی دھمکیاں دینے کے ساتھ یہ بھی کہتے تھے کہ اگر آپ لوگ واپس نہ گئے تو آپ کے خلاف دہشت گردی کی دفعات کے تحت مقدمات درج کیے جائیں گے۔

بی بی سی کے مطابق جمعرات کی شب اسلام آباد پولیس کی جانب سے دو بڑی گاڑیاں ویمن پولیس اسٹیشن بھجوائی گئیں، جہاں پر قید خواتین اور بچوں کو زبردستی ان گاڑیوں میں بٹھا کر واپس بلوچستان بھیجنے کی کوشش کی گئی لیکن مظاہرین نے بسوں میں بیٹھنے سے انکار کر دیا۔

ان مظاہرین میں سائرہ بلوچ بھی شامل تھیں، جنہیں ویمن پولیس اسٹیشن میں بند کیا گیا تھا۔

سائرہ بلوچ کے الزامات پر اسلام آباد پولیس نے اپنے ایک بیان میں کہا کہ مظاہرین پر کسی پر کسی بھی قسم کا تشدد نہیں کیا گیا اور بعض افراد منفی پراپیگنڈہ اور سستی شہرت کے لیے جھوٹی خبریں پھیلا رہے ہیں۔

اسلام آباد پولیس کے ترجمان کے بیان کے مطابق مظاہرین کو پولیس نے اپنی حفاظت میں ان کی مرضی کے مقام پر روانہ کیا۔

خیال رہے کہ اس سے قبل جمعرات کو اسلام آباد پولیس کے سربراہ اکبر ناصر نے عدالت کو بتایا تھا کہ ان کے پاس کوئی بھی خاتون قید میں نہیں اور سب کو رہا کر دیا گیا ہے۔

اسلام آباد

Saira Baloch

Mahrang Baloch

Balochistan Long March