پاکستانی فارما انڈسٹری کو ادویہ سازی میں متعدد مسائل کا سامنا، حل کیا ہے؟
دوا ساز کمپنیوں کی تنظیم ”پاکستان فارماسیوٹیکل مینوفیکچررز ایسوسی ایشن“ (پی پی ایم اے) نے نگراں وفاقی حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ فوری طور پر 262 ادویات کی قیمتوں میں معقول اضافے کی اجازت دی جائے، بصورت دیگر ضروری ادویات کی مارکیٹ میں قلت کا خدشہ ہے۔
ملکی معاشی اور سکیورٹی حالات کے باعث پاکستان کی فارما انڈسٹری کئی مسائل کا شکار ہوگئی ہے۔
ملک میں کسی بھی دوسری صنعت کی طرح ادویہ ساز کمپنیوں کو بھی بجلی، گیس، مزدوری اور خام مال کی قیمتوں میں غیر معمولی اضافے کی وجہ سے لاگت میں مسلسل اضافے کے سنگین چیلنج کا سامنا ہے۔
پی پی ایم اے کے مرکزی چیئرمین میاں خالد مصباح الرحمن کا کہنا ہے کہ مذکورہ ادویات کی قیمتوں پر نظرثانی انتہائی ضروری ہوگئی ہے، کیونکہ حکومت کی جانب سے پچھلی بار جب ان دواؤں کی قیمتوں میں اضافے کی اجازت دی گئی تھی تو ڈالر کی قیمت اس وقت 200 روپے سے کم تھی۔
تاہم، اب ’شرح مبادلہ، ریکارڈ مہنگائی کی وجہ سے ادویات کی پیداواری لاگت کئی گنا بڑھ گئی ہے‘۔
میاں خالد مصباح الرحمن نے خدشہ ظاہر کیا کہ اگر حکومت ادویات کی قیمتوں میں اضافے کی اجازت دینے میں غیر ضروری طور پر تاخیر کرتی رہی تو مزید ملٹی نیشنل ڈرگ پروڈیوسرز کے پاس اپنے کاروبار کو سمیٹنے کے سوا کوئی چارہ نہیں بچے گا۔
انہوں نے ملک کی فارما انڈسٹری کی دگرگوں حالت کے نقصانات بیان کرتے ہوئے کہا ’پاکستان میں ملٹی نیشنل فارماسیوٹیکل کمپنیوں کی تعداد میں گزشتہ کئی سالوں کے دوران پہلے ہی نمایاں کمی آئی ہے، ان کی تعداد میں مزید کمی پاکستان میں غیر ملکی سرمایہ کاری کو راغب کرنے کی حکومت کی موجودہ کوششوں کے خلاف ہوگی۔‘
مصباح الرحمن کا کہنا تھا کہ 100 سے زائد ضروری ادویات پہلے ہی مارکیٹ میں دستیاب نہیں ہیں، اور ایسی ادویات کی تعداد میں مزید اضافہ مریضوں کے لیے سنگین نقصان کا باعث بنے گا۔
انہوں نے خبردار کیا کہ جب مقامی طور پر تیار کردہ ادویات مارکیٹ میں دستیاب نہیں ہوتیں تو مریض جعلی اور اسمگل شدہ ادویات پر انحصار کرتے ہیں، جو ان کیلئے جانی اور مالی مسائل کا باعث ہوتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ پاکستانی فارماسیوٹیکل انڈسٹری ملک میں ادویات کی 95 فیصد تک طلب پوری کر رہی ہے، لیکن اگر حکومت نے ادویات کی قیمتوں کے تعین کے نظام پر نظرثانی نہیں کی تو اس کی پائیداری کو شدید خطرہ لاحق ہونے کا خدشہ ہے۔
پی پی ایم اے کے چیئرمین نے کہا، ’ہم حکومت سے مسلسل مطالبہ کر رہے ہیں کہ وہ ان زمینی حقائق پر دھیان دے جو ملک میں ڈرگ پروڈیوسرز کو متاثر کرتے ہیں‘۔
انہوں نے کہا کہ مقامی فارما انڈسٹری کے معاملے میں قیمتوں کے تعین کے نظام کو مؤثر طریقے سے کام کرنا چاہیے، کیونکہ ادویات کا 95 فیصد خام مال درآمد کیا جاتا ہے جن کی قیمتیں روپے کی قدر میں کمی کے ساتھ بڑھ جاتی ہیں۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ کہ پاکستانی ادویات کی سالانہ برآمدات محض 300 ملین امریکی ڈالر کے لگ بھگ ہیں، اسے 5 بلین ڈالر تک بڑھایا جا سکتا ہے، لیکن اس کے لیے حکومت کو چاہیے کہ وہ ادویات کی صنعت کے لیے مسلسل سازگار پالیسیوں پر عمل درآمد کرے جس سے اسے ریاستی سطح پر اپنانے کی اجازت دی جائے۔
Comments are closed on this story.