آڈیو لیکس کیس: ٹیپنگ کی کسی ایجنسی کو اجازت نہیں، اٹارنی جنرل
اسلام آباد ہائیکورٹ میں آڈیو لیکس کیس میں سابق چیف جسٹس ثاقب نثار کے بیٹے نجم الثاقب اور بشریٰ بی بی کی درخواستوں پر سماعت ہوئی۔
اسلام آباد ہائیکورٹ کے جسٹس بابر ستار کی زیر سماعت کیس کے دوران بشریٰ بی بی کے وکیل لطیف کھوسہ اور اٹارنی جنرل منصور اعوان عدالت کے سامنے پیش ہوئے۔
اپریل میں سابق چیف جسٹس ثاقب نثار کے بیٹے نجم الثاقب کی پنجاب اسمبلی کے حلقہ 137 سے پی ٹی آئی کا ٹکٹ لینے والے ابوذر سے گفتگو کی مبینہ آڈیو لیک ہوئی تھی۔ اسی طرح بشریٰ بی بی کی اپنے وکیل لطیف کھوسہ کے ساتھ کی گئی گفتگو کی آڈیو لیک ہوئی تھی۔
دورانِ سماعت اٹارنی جنرل نے وزیر اعظم آفس کی رپورٹ عدالت میں پیش کی۔
اٹارنی جنرل نے بتایا کہ وفاقی حکومت کی جانب سے آڈیو ٹیپنگ کی کسی ایجنسی کو اجازت نہیں، آئی ایس آئی، ایف آئی اے ، آئی بی کسی کو بھی آڈیو ٹیپ کرنے کی اجازت نہیں۔
دوران سماعت اٹارنی جنرل نے کہا کہ ایف آئی اے کو پہلے دیکھنا ہے کس نے کال ریکارڈ کی، عدالتی احکامات کے بعد ایف آئی اے ٹیلی کام کمپنیوں کو لکھ رہا ہے ، ایف آئی اے کو سن آئی پی ایڈریسز تک رسائی چاہیے ہوگی۔
اٹارنی جنرل نے کہا کہ اگر کوئی حکومتی ایجنسی ریکارڈنگز کر رہی ہے تو غیر قانونی کر رہی ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ آئی ایس آئی کی رپورٹ کے مطابق سوشل میڈیا فلیٹ فارمز سے رپورٹ لینی پڑے گی، تب ہی تحقیقات آگے بڑھ سکتی ہیں۔
اس دوران جسٹس بابر ستار نے کہا کہ آئی ایس آئی کہہ رہی ہے آڈیو کہاں سے لیک ہوئی اس کے سورس کا پتہ نہیں لگا سکتی۔ ؎
عدالت نے استفسار کیا کہ آئی ایس آئی نے وزارت دفاع کے ذریعے کیوں ریورٹ فائل کی؟
جس پر اٹارنی جنرل نے کہا کہ ان کو وزیراعظم آفس کے ذریعے ریورٹ فائل کرنی چاہیے تھی۔
دورانِ سماعت پیمرا کے وکیل نے کہا کہ ہم نے کہا تھا ٹی وی چینلز اس قسم کی آڈیو لیکس نشر نہیں کریں گے، ہم نے یہ معاملہ کونسل آف کمپلینٹ کو بھیجا وہ فیصلہ کریں گے۔
جسٹس بابر ستار نے وکیل پیمرا سے استفسار کیا کہ کیا آپ موثر طریقے سے بطور ریگولیٹر کام کر رہے ہیں؟ کیا آپ نے ٹی وی چینلز کو کسی اور کیس میں فوری ہدایات جاری کیں ہیں؟ آپ یہ کہہ رہے ہیں کہ فوری طورپر آپ ایکشن نہیں لے سکتے؟
جسٹس بابر ستار نے پھر کہا کہ معاملہ کونسل آف کمپلینٹ کے پاس جائے گا۔
جسٹس بابر ستار نے ریمارکس دیے کہ فریڈم آف انفارمیشن اور پرائیویسی کا معاملہ ہے کیس بیلنس ہونا چاہیے، ریاست کی ذمہ داری ہے کہ وہ اس کو یقینی بنائے۔
جسٹس بابر ستار نے استفسار کیا کہ اعتزاز صاحب آپ بتائیں کیسے اس کیس کو اب آگے بڑھایا جائے؟
بشریٰ بی بی کے وکیل لطیف کھوسہ نے کہا کہ یہاں نام لینے پر تو پابندی ہے لیکن میری تصویر پورا دن چلتی رہی ہے۔
جس پر جسٹس بابر ستار نے کہا کہ یہ تو آپ کے الیکشن میں بھی پھر آپ کی مدد کرے گی، بحرحال یہ ایک سیریس ایشو ہے اس کو ایڈریس کریں گے۔
عدالت نے اٹارنی جنرل منصور اعوان کو کہا کہ آپ چیک کیجئے گا کوئی خبر تھی کہ آئی بی کو ریکارڈنگ کی اتھارٹی دی گئی کیا ایسا ہے؟ جس پر اٹارنی جنرل نے کہا کہ میں چیک کرکے بتا دوں گا۔
عدالت نے پی ٹی اے کو ہدایت کی کہ ڈی جی صاحب آئندہ سماعت پر آپ تفصیلی رپورٹ جمع کرائیں۔
جسٹس بابر ساتر نے کہا کہ تماشہ بنانا چاہتے ہیں تو بنا لیں، اب وفاقی حکومت پر ہے کہ وہ کیسے چلانا چاہتے ہیں، حکومت نے نہیں بتایا تو پھر ہم نیشنل اور انٹرنیشنل عدالتی معاون مقرر کریں گے۔
عدالت نے ایف آئی اے سمیت دیگر کو دوبارہ جواب جمع کرانے کی ہدایت کرتے ہوئے سماعت ملتوی کردی۔
Comments are closed on this story.