برطانیہ میں بہو پر ظلم کرنے والے پاکستانی خاندان کے 4 افراد مجرم قرار
برطانوی شہر ہڈرز فیلڈ میں پاکستانی نژاد برطانوی خاندان کے چارافراد کو بہو امبرین فاطمہ کو جسمانی نقصان پہنچانے کے جرم میں مجرم قرار دے دیا گیا۔
امبرین فاطمہ نامی خاتون کے شوہر اصغر شیخ (30 سال)، سسر خالد شیخ (55 سال)، ساس شبنم شیخ ( 53 سال) اور 29 سالہ بھابھی شگوفہ شیخ کواس بات کا قصور وار قرار دیا گیا کہ انہوں نے ایمبولینس بلانے سے پہلے امبرین کو 3 روز تک بیہوشی کی حالت میں رہنے دیا جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ وہ 8 سال سے بیمارہیں۔
عدالت کو بتایا گیا کہ امبرین 2014 میں اصغر کے ساتھ شادی کے لیے پاکستان سے برطانیہ گئی تھیں ، چند ماہ کے اندر ہی تناؤ پیدا ہونے سے وہ سماجی تنہائی کا شکار ہو گئیں۔
مقدمے کی سماعت اس سال اکتوبر کے اوائل میں شروع ہوئی تھی۔
عدالت نے شوہر کے علاوہ سسرال والوں کو بھی انصاف ناکام بنانے کی سازش کرنے کا قصوروار ٹھہرایا۔
لیڈز کراؤن کورٹ کی جیوری نے 10 گھنٹے سے زائد کی بحث کے بعد شوہراور اس کے اہل خانہ کیخلاف متفقہ طور پر جرم کا فیصلہ واپس لے لیا۔ دیور ثقلین کو خاتون کو سنگین جسمانی نقصان پہنچانے یا اس کی اجازت دینے کا قصوروار نہیں پایا گیا تھا۔
پراسیکیوٹر رابرٹ سٹین اسمتھ نے پریشان کن غفلت اور بدسلوکی کا بیانیہ پیش کرتے ہوئے کہا کہ امبرین جولائی 2015 کے آخر تک بہت کمزور ہوگئی، یکم اگست 2015 کو شگوفہ شیخ نے ایمبولینس سروس کو کال کی جس میں بتایا گیا کہ امبرین ٹھیک سے سانس نہیں لے پا رہی ہیں۔ پیرامیڈکس نے اسے بے ہوش پایا ۔ خاتون کمر کے نچلے حصے پر شدید جلن تھی ، جو ممکنہ طورپر کاسٹک مادہ کی وجہ سے ہوا تھا۔
عدالت کو بتایا گیا کہ ایمبولینس بلانے سے قبل امبرین کو 3 دن تک بے ہوش رکھا گیا تھا۔ جان کو لاحق شدید خطرات کے امبرین زندہ بچ گئیں لیکن بات چیت کرنے سے قاصر رہیں۔
پولیس کو اس وقت آگاہ کیا گیا جب ڈاکٹروں نے خدشہ ظاہر کیا کہ امبرین کے زخم ’مشکوک‘ ہیں کیونکہ نرسوں کو خدشہ تھا کہ وہ غذائیت کی کمی کا شکارہیں۔
استغاثہ نے دلیل دی کہ ہوسکتا ہے کہ امبرین غیر ارادی طور پر ذیابیطس کے خلاف دوا کھائی ہو، جس سے اسے شدید نقصان پہنچا۔ تاہم، مزید جانچ میں اضافی چوٹوں کا انکشاف ہوا، جس میں خاتون کے دائیں کان میں چوٹ اور اس کی پُشت پر کاسٹک جلن کے نشانات شامل ہیں. استغاثہ کا کہنا تھا کہ ان کی حالت ہائپوگلیسیمیا کی وجہ سے ہو سکتی ہے، جس کی وجہ سے دماغ میں سوجن اور ہوش وہواس ختم ہو جاتے ہیں۔ استغاثہ کا کہنا ہے کہ انہیں ذیابیطس نہیں ہے۔
خاتون کے دیورسمیت خاندان کے تمام پانچ افراد پر انصاف کی راہ میں خلل ڈالنے کی سازش کرنے کا بھی الزام تھا۔
عدالت نے سنا کہ فیملی نے مبینہ طور پر ’ثبوت چھپانے‘ کے لیے امبرین کے گندے کپڑے اور بست ٹھکانے لگا دیا، کیونکہ انہوں نے ایمبولینس عملے کو اس کی حالت کے بارے میں غلط معلومات فراہم کی تھیں۔
استغاثہ نے الزام عائد کیا کہ ایمبولینس کو بلانے سے پہلے ایک یا ایک سے زیادہ ملزمان نے بے ہوشی کی حالت کو چھپانے کی کوشش کی۔
پولیس نے ایک ہی گھر میں رہنے والے خاندان کے افراد سے پوچھ گچھ کی لیکن کسی نے بھی اس کی وضاحت نہیں کی کہ کیا ہوا تھا۔ ان سبھی کو انصاف کی راہ میں خلل ڈالنے کی سازش کرنے کا قصوروار ٹھہرایا گیا تھا۔
Comments are closed on this story.