پی ٹی آئی انٹرا پارٹی الیکشن: پینل ایک ہے تو ووٹر پوچھ ہی نہیں سکتا ووٹ کیوں نہیں ڈالنے دیا، بیرسٹر علی ظفر
الیکشن کمیشن آف پاکستان (ای سی پی) میں تحریک انصاف (پی ٹی آئی) انٹرا پارٹی انتخابات کے خلاف درخواستوں پر سماعت جاری ہے۔
چیف الیکشن کمشنر سکندر سلطان راجہ کی سربراہی میں 5 رکنی کمیشن درخواستوں پر سماعت کررہا ہے۔
الیکشن کمیشن نے چیئرمین پی ٹی آئی گوہرخان، پی ٹی آئی کے چیف الیکشن کمشنر نیازاللہ نیازی، پارٹی جنرل سیکرٹری عمرایوب سمیت نو عہدیداروں کو نوٹسز جاری کر رکھے تھے۔
چیئرمین پی ٹی آئی بیرسٹر گوہرعلی خان کمیشن میں پیش ہوئے جب کہ علی ظفر اور چیف الیکشن کمشنر پی ٹی آئی نیازاللہ نیازی کے علاوہ درخواست گزار اکبر ایس بابر سمیت متعدد درخواست گزار بھی موجود ہیں، سیکرٹری الیکشن کمیشن اور ڈی جی لاء بھی کمرہ عدالت میں موجود ہیں۔
درخواست گزار کے وکیل عزیز الدین کاکا خیل کے دلائل
درخواست گزار کے وکیل عزیز الدین کاکا خیل نے دلائل کا آغاز کرتے ہوئے کہا کہ انتخابی نتائج کے کتنے ووٹ کاسٹ ہوئے؟ کہیں نہیں بتایا گیا۔
ممبر سندھ نثار درانی نے وکیل سے کہا کہ جب الیکشن ہی بلامقابلہ ہوئےتوووٹ کیسے ڈل سکتے ہیں۔
وکیل درخواست گزار نے کہا کہ ہمارے مطابق الیکشن ہوا ہی نہیں اور نتائج کا اعلان کردیا گیا، ہمارے مطابق اسلام آباد میں الیکشن کروانا بہترین مقام تھا لیکن پشاور میں کروائے گئے۔
درخواست گزارکے وکیل نے انٹرا پارٹی انتخابات کو کالعدم قرار دینے کی استدعا کردی۔
یہ بھی پڑھیں:
انٹراپارٹی انتخابات: الیکشن کمیشن نے چیئرمین پی ٹی آئی سمیت 9 عہدیداروں کو نوٹسز جاری کردیے
پی ٹی آئی انٹرا پارٹی الیکشن کیخلاف تمام درخواستگزاروں کو آئندہ سماعت جواب جمع کرانے کی ہدایت
پی ٹی آئی انٹرا پارٹی انتخابات کے نتائج کالعدم قرار دینے کے معاملے پر درخواست گزار اکبر ایس بابر کے وکیل احمد حسن نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ ووٹر لسٹ کی تصدیق کرائے بغیر انتخابات کروائے گئے، الیکشن شیڈول سمیت کاغذات نامزدگی کے بارے میں بھی نہیں بتایا گیا، صرف تین دن میں لاکھوں ووٹرز کا الیکشن کیسے ہوگیا؟ الیکشن میں پارٹی آئین کو بھی مدنظر نہیں رکھا گیا۔
درخواست گزار نورین کے وکیل نے بھی اکبر ایس بابر کے دلائل اپنا لئے، درخواست گزار محمود خان نے بھی اکبر ایس بابر کے دلائل کی تائید کردی، درخواست گزار صبا زاہد نے بھی اکبر ایس بابر کے دلائل اپنا لئے۔
درخواست گزار شاہ فہد نے کہا کہ انتخابات میں کسی کو بھی حصہ نہیں لینے دیا گیا، انتخابات کالعدم قرار دیے جائیں۔
تحریک انصاف کے وکیل علی ظفر نے دلائل میں کہا کہ الیکشن کمیشن نے پارٹی آئین میں کی گئی ترمیم کو تسلیم نہیں کیا، شو آف ہینڈز کےذریعے الیکشنز کرانے کےلئے ترمیم کی، الیکشن کمیشن کے حکم کے مطابق 2019 کے آئین کے مطابق الیکشنز کرائے، پارٹی آئین کے مطابق الیکشنز پینل کی بنیاد پر لڑے جاتے ہیں، وفاقی اور صوبائی سطح پر پینل پر الیکشنز ہوتے ہیں، پارٹی آئین کے مطابق اگر ایک پینل سامنے آتا ہے تو ووٹ کی ضرورت ہی نہیں۔
انہوں نے کہا کہ اگرپینل ایک ہے تو ووٹر پوچھ ہی نہیں سکتا ووٹ کیوں نہیں ڈالنے دیا۔
ممبر پنجاب بابر حسن بھروانہنے سوال کیا کہ کیا یہ سب پارٹی آئین میں ہے؟
جس پر علی ظفر نے کہا کہ جی پارٹی کے آرٹیکل 5 میں موجود ہے، اس کے بعد بیرسٹر علی ظفر نے پارٹی آئین کے آرٹیکل 5 کو پڑھ کر سنایا۔
چیف الیکشن کمشنر نے مسکرا کرعلی ظفر کو کہا کہ آپ نے تو ہمارے آر اوز معطل کروا دیے۔
جس پر علی ظفر نے کہا کہ میں سپریم کورٹ میں تھا، مجھے بھی اس کا نہیں پتا چلا، سرپرائز ملا۔
چیف الیکشن کمشنر نے پوچھا آپ کے دلائل میں کتنا وقت لگے گا؟
بیرسٹر علی ظفر نے جواب دیا کہ مجھے کم ازکم ایک گھنٹہ درکار ہے۔
جس پر چیف الیکشن کمشنر نے کہا کہ پھر کل کیس کی سماعت رکھ لیتے ہیں۔
بیرسٹر علی ظفرنے کہا کہ کل مجھے لاہور جانا ہے۔
جس کے بعد کیس کی سماعت 18 دسمبر تک ملتوی کردی گئی۔
واضح رہے کہ پی ٹی آئی انٹرا پارٹی انتخابات کے خلاف پارٹی کے بانی رہنما اکبر ایس بابر سمیت 13 افراد نے درخواستیں دائر کی ہیں۔
دوسری جانب ہم عوام پاکستان پارٹی نے انتخابی نشان بلے کے حصول کے لیے الیکشن کمیشن میں درخواست جمع کروا رکھی ہے۔
Comments are closed on this story.