سوات: رواں سال 31 خواتین کو نام نہاد غیرت کے نام پر موت کی نیند سلا دیا گیا
سوات میں غیرت کے نام پر خواتین کو قتل کرنے کا سلسلہ جاری ہے، رواں سال غیرت کے نام پر 31 حوا کی بیٹیوں کی زندگی کا چراغ گل کردیا گیا۔
قتل ہونے والی خواتین کے لواحقین انصاف کیلئے در در کی ٹھوکریں کھانے پر مجبور ہیں، جبکہ پولیس زیادہ تر خواتین کے کیسز کو خودکشی ظاہر کرکے خانہ پوری کرنے لگی۔
زیادہ تر کیسز میں اصل حقائق پر پردہ ڈالنے کیلئے غیرت کا نام استعمال کیا جاتا ہے
سوات کے علاقہ مدین میں قتل ہونے والی خاتون کی بہن کا کہنا ہے کہ میری بہن محکمہ فارسٹ میں ملازمہ تھی۔ خاوند کو تنخواہ کے پیسے نہ دینے پر اسے قتل کیا گیا، بعد میں غیرت کے نام پر قتل کا الزام لگایا گیا۔
انہوں نے کہا کہ ہمیں انصاف چاہئے، کیونکہ ہماری بہن کو بے گناہ قتل کیا گیا ہے۔
پولیس زیادہ تر کیسوں میں غیرت کی دفعہ ہی شامل نہیں کرتی
سوات میں نجی این جی او کے ڈائریکٹر اور خواتین کے حقوق کیلئے کام کرنے والے عرفان حسین بابک کے مطابق وادیِ سوات میں سال 2023ء میں 31 خواتین کو غیرت کے نام پر قتل کیا گیا ہے۔ جبکہ 2022 میں 16 خواتین کو غیرت کے نام پر قتل کیا گیا تھا۔
انہوں نے کہا کہ ہمارا ادارہ لواحقین کو قانونی اور مالی مد دیتا ہے، لیکن ناقص تفتیش سے ملزمان سزا سے بچ جاتے ہیں۔
عرفان حسین نے کہا کہ پولیس اکثر اوقات خواتین کے قتل کو خودکشی قرار دے کر تفتیش ہی بند کردیتی ہے، یا زیادہ تر کیسوں میں غیرت کی دفعہ 311 ہی شامل نہیں کرتی، کیونکہ اگر کیس میں غیرت کی دفعہ شامل کی جائے تو پھر اس میں راضی نامہ نہیں ہوسکتا اور کیس ریاست کی ذمہ داری ہوجاتا ہے۔ اس لیے وہ اس میں مذکورہ دفعہ لگانے سے ہچکچاہٹ محسوس کرتے ہیں، جس کا فائدہ ملزمان کو ہوتا ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ غیرت کے نام پر زیادہ خواتین رشتہ داروں کے ہاتھوں قتل ہوتی ہیں اور پھر خاندانی پریشر پر راضی نامہ کیا جاتا ہے، جس کی وجہ سے غیرت کے نام پر خواتین کے قتل میں دن بہ دن اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔
رواں سال سوات میں کتنے قتل رجسٹرڈ ہوئے، اور کتنے ملزمان کو چارج شیٹ کیا گیا؟
ایڈیشنل ایس پی سوات بادشاہ حضرت کے مطابق رواں سال سوات میں آٹھ قتل رجسٹرڈ ہوچکے، جس میں چودہ ملزمان کو چارج کیا گیا ہے، ان میں سے تیرہ ملزمان کو گرفتار کیا جاچکا ہے جبکہ ایک ملزم تاحال روپوش ہے جس کو بہت جلد گرفتار کیا جائے گا۔
ان کا کہنا تھا کہ زیادہ تر ملزمان کا تعلق رشتہ داروں سے ہوتا ہے، جس کی وجہ سے راضی نامہ کیا جاتا ہے۔
ایس پی سوات بادشاہ حضرت نے کہا کہ پولیس کاکام ملزمان کو گرفتار کرنا ہے۔ رہائی دینا عدالتوں کا کام ہے۔
Comments are closed on this story.