توشہ خانہ کیس میں عمران خان کی درخواستِ ضمانت پر سماعت کل تک ملتوی
توشہ خانہ کیس میں پاکستان تحریک انصاف کے سابق چیئرمین عمران خان کی درخواستِ ضمانت پر سماعت کل تک ملتوی کر دی گئی۔
احتساب عدالت کے جج محمد بشیر نے توشہ خانہ کیس میں عمران خان کی درخواست ضمانت پر اڈیالہ جیل میں سماعت کی۔
آج سابق وزیراعظم عمران خان کے وکیل لطیف کھوسہ اور نیب پراسیکیوٹر نے ابتدائی دلائل دیے۔
بعدازاں عدالت نے فریقین کے مزید دلائل کے لیے سماعت کل تک ملتوی کر دی۔
واضح رہے کہ گزشتہ روز عمران خان کے وکیل کی عدم دستیابی کے باعث سماعت ملتوی کردی گئی تھی۔
توشہ خان کیس کیا ہے ؟
سابق چیئرمین پی ٹی آئی کے خلاف توشہ خانہ کیس کی ابتدا اس وقت ہوئی جب مسلم لیگ ن کے رکن قومی اسمبلی بیرسٹر محسن نواز رانجھا نے عمران خان کے خلاف ایک ریفرنس دائر کیا۔
اسپیکر قومی اسمبلی کے پاس آئین کے آرٹیکل 63 (ٹو) کے تحت دائر ہونے والے ریفرنس میں دعویٰ کیا گیا تھا کہ عمران خان نے سرکاری توشہ خانہ سے تحائف خریدے مگر الیکشن کمیشن میں جمع کرائے گئے اثاثہ جات کے گوشواروں میں انھیں ظاہر نہیں کیا، اس طرح وہ ’بددیانت‘ ہیں، لہٰذا انھیں آئین کے آرٹیکل 62 ون (ایف) کے تحت نااہل قرار دیا جائے۔
یہ ریفرنس موصول ہونے کے بعد اسپیکر قومی اسمبلی راجہ پرویز اشرف نے چار اگست 2022 کو الیکشن کمیشن کو یہ ریفرنس بھیجا جس میں آئین کے آرٹیکل 62 ون ایف کے تحت عمران خان کی نااہلی کی سزا کی استدعا کی گئی تھی۔
الیکشن کمیشن نے اس ریفرنس پر کارروائی کی اور 21 اکتوبر 2022 کو دیے گئے اپنے فیصلے میں قرار دیا کہ سابق وزیرِ اعظم نے تحائف کے بارے میں ’جھوٹے بیانات اور بے بنیاد‘ اعلانات کیے۔
الیکشن کمیشن نے چیئرمین پی ٹی آئی کو نااہل قرار دیتے ہوئے ان کے خلاف فوجداری کارروائی کے آغاز کا فیصلہ دیا۔
اس فیصلے کی روشنی میں الیکشن کمیشن نے اسلام آباد کی ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن کورٹ میں اس ضمن میں درخواست دائر کی جس میں عمران خان کے خلاف فوجداری قانون کے تحت کارروائی کرنے کی استدعا کی گئی۔
اسلام آباد کی ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن کورٹ کے جج ہمایوں دلاور کی عدالت میں اس کے بعد سے اس کیس (توشہ خانہ) کی سماعت کا آغاز ہوا اور رواں برس 10 مئی کو عمران خان پر فردِ جرم عائد کر دی گئی۔ یہ وہ دن تھا جب عمران خان القادر ٹرسٹ کیس میں زیر حراست تھے۔
مزید پڑھیں
واضح رہے کہ اسلام آباد کی ٹرائل کورٹ نے توشہ خانہ فوجداری کیس میں چیئرمین پی ٹی آئی کو 3 سال قید، 5 سال کی نااہلی اور 1 لاکھ روپے جرمانے کی سزا سنائی تھی۔
Comments are closed on this story.