Aaj News

پیر, دسمبر 23, 2024  
20 Jumada Al-Akhirah 1446  

موہنجودڑو: اسٹوپا سے 2 ہزار سال پُرانے سکے دریافت، دلچسپ حقائق سامنے آگئے

نایابب سکے بدھ مت کے ایک اسٹوپا کےہیں جو بہت پرانے کھنڈرات کے درمیان قائم ہے۔
شائع 05 دسمبر 2023 10:19am
تصویر: شیخ جاوید علی سندھی
تصویر: شیخ جاوید علی سندھی

پاکستان میں آثار قدیمہ کے ماہرین نے موہنجو داڑو کے تاریخی مقام پر بدھ مت کے ایک اسٹوپا کے کھنڈرات سے تانبے کے سکوں کا انتہائی نایاب ذخیرہ دریافت کیا ہے، خیال کیا جاتا ہے کہ یہ ذخیرہ 2 ہزار سال سے زائد پرانا ہے۔

ماہرین کے مطابق سکے اور مزارجسے اسٹوپا کے نام سے جانا جاتا ہے کوشان سلطنت کے زمانے سے ہیں جو بنیادی طور پر بدھ مت کی سیاست تھی جس نے تقریبا دوسری صدی قبل مسیح سے تیسری صدی عیسوی تک اس خطے پر حکمرانی کی، اور سکندر اعظم کے ذریعہ وسطی ایشیا میں قائم کردہ گریکو بیکٹریائی سلطنت کو فتح کیا۔

یہ اسٹوپاموجودہ جنوب مشرقی پاکستان میں موہنجو دڑو کے وسیع کھنڈرات کے درمیان واقع ہے جو تقریبا 2600 قبل مسیح کا ہے اور دنیا کی قدیم ترین تہذیبوں میں سے ایک وادی سندھ یا ہڑپہ تہذیب سے تعلق رکھتا ہے -

سکوں کا ذخیرہ 2 ہزار سال قبل قدیم شہر کی باقیات کے اوپر تعمیر کیے گئے بدھ مت کے ایک اسٹوپا کے کھنڈرات کے درمیان پایا گیا۔

فوٹو کریڈٹ: شیخ جاوید علی سندھی

آثار قدیمہ کے ماہر اورگائیڈ شیخ جاوید علی سندھی نے لائیو سائنس کو بتایا کہ “یہ اسٹوپا تقریبا 1600 سال بعد موہن جو دڑو کے ویران کھنڈرات کی چوٹی پرتعمیر کیا گیا تھا۔

جاوید اس ٹیم کا حصہ تھے جس نے رواں ماہ کے اوائل میں موہنجو دڑو میں کھدائی کے دوران سکے کے ذخیروں کا سراغ لگایا تھا۔ ٹیم کی قیادت سید شاکر شاہ نے کی جو موہن جو دڑو سائٹ پر آثار قدیمہ کے ڈائریکٹر ہیں۔

جاوید سندھی کے مطابق ان نایاب سکوں کو آثار قدیمہ کی لیبارٹری میں احتیاط سے صاف کیا جائے گا۔

سکے سبز رنگ کے ہیں کیونکہ تانبہ ہوا سے خراب ہوجاتا ہے۔ صدیوں سے ایک ہی جگہ موجودگی نے سکوں کو آپس میں بھی جوڑ دیا ہے جس کا وزن تقریبا 12 پاؤنڈ (5.5 کلوگرام) ہے۔

لیکن کچھ سکے الگ الگ بھی ملے ہیں۔ جاوید سندھی نے مزید بتایا کہ اس ذخیرہ میں ممکنہ طور پر ایک ہزار سے 1500 تک کے درمیان انفرادی سکے شامل ہیں۔

تانبے کے سکوں کے ذخیرے کو سبز رنگ دیا گیا اور پانچ اضافی سکوں اور اس کے کنٹینر کی ٹوٹی ہوئی باقیات کو سفید ڈسپلے پر ایک ہی ٹکڑے میں ملا دیا گیا۔

انہوں نے کہا کہ اس ذخیرے کے کچھ بیرونی سکے ایک شخصیت کی عکاسی کرتے ہیں، جس کے بارے میں محققین کا خیال ہے کہ یہ ممکنہ طور پر کوشان بادشاہ کی تصویر ہے۔ دوسری جانب کہیں کہیں ہندو دیوتا شیوا کی عکاسی بھی کی گئی ہے۔

سکے 1931 کے بعد اسٹوپا کے کھنڈرات سے دریافت ہونے والے پہلے نوادرات ہیں، جب برطانوی ماہر آثار قدیمہ ارنسٹ میک کے نے وہاں تانبے کے ایک ہزار سے زیادہ سکے دریافت کیے تھے۔ دیگر سکے 1920 کی دہائی میں اسٹوپا میں دریافت ہوئے تھے۔

موہنجو دڑو جس کا مطلب مقامی سندھی زبان میں ”مردہ لوگوں کا ٹیلہ“ ہے ، تقریبا 1800 قبل مسیح میں قدیم وادی سندھ کی تہذیب کے دیگر بڑے شہروں کے ساتھ چھوڑ دیا گیا تھا۔

محققین کا خیال ہے کہ ہڑپہ کے شہر دریائے سندھ کے سیلابی علاقوں سے بہت دور خشک آب و ہوا میں زندہ رہنے کے قابل نہیں تھے اس لیے لوگ انہیں چھوڑ کر ہمالیہ کے دامن میں چھوٹی بستیوں میں آبسے۔

خیال کیا جاتا ہے کہ تقریبا 150 عیسوی میں کوشان سلطنت کے بادشاہوں نے موہنجو دڑو میں بدھسٹ اسٹوپا کی تعمیر کا حکم دیا تھا۔ اس وقت تک قدیم شہر کے بنیادی کھنڈرات تقریبا 2،000 سال پرانے تھے ، تاہم اس بات کا علم نہیں ہے کہ اس وقت قدیم مقام کا کتنا حصہ نظر آتا ہوگا۔

اس اسٹوپا کو تقریبا 500 عیسوی میں ممکنہ طور پر زلزلے میں تباہ ہونے کے بعد یا اس علاقے میں بدھ مت کے اثر و رسوخ میں کمی کی وجہ سے ترک کردیا گیا تھا’

اس وقت تک کوشان سلطنت آزاد ریاستوں میں منقسم ہو چکی تھی ، جنہیں پہلے ساسانی فارسیوں نے اور بعد میں شمال سے حملہ آوروں نے فتح کیا تھا۔

Mohenjo Daro

COPPER COINS

BUDDHIST SHRINE