جوڈیشل کمپلیکس میں سماعت چیئرمین پی ٹی آئی کیلئے محفوظ نہیں، عدالت کا تحریری حکمنامہ جاری
سابق وزیراعظم عمران خان اور سابق وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کے خلاف سائفر گمشدگی کیس کی سماعت پر محفوظ فیصلہ سنا دیا گیا، عدالت نے کہا ہے کہ عدالت سابق وزیراعظم کی جان کو لاحق خطرات کی تشخیص کو ہلکا نہیں لے سکتی، جوڈیشل کمپلیکس میں سماعت چیئرمین پی ٹی آئی کیلئے محفوظ نہیں۔
سابق وزیراعظم عمران خان اور سابق وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کے خلاف سائفر گمشدگی کیس کی سماعت پر آفیشل سیکرٹ ایکٹ خصوصی عدالت نے محفوظ فیصلہ سنا دیا ہے، اور اس کا تحریری حکم نامہ بھی جاری کردیا گیا ہے۔
سائفرکیس کی سماعت اڈیالہ جیل میں کرنے کا تحریری حکم نامہ جاری
جج ابوالحسنات ذوالقرنین کی جانب سے جاری ہونے والے تحریری حکم نامے میں کہا گیا ہے کہ آج چیئرمین پی ٹی آئی اور شاہ محمودقریشی غیرحاضررہے، سپرنٹنڈنٹ اڈیالہ جیل نے سیکیورٹی رپورٹ پیش کی گئی، اور رپورٹ کے مطابق چیئرمین پی ٹی آئی کی جان کو خطرہ ہے۔
حکم نامے میں کہا گیا ہے کہ عدالت کی جانب سے سپرنٹنڈنٹ اڈیالہ جیل کی رپورٹ کا بغور جائزہ لیا گیا، رپورٹ سے ظاہر ہے کہ چیئرمین پی ٹی آئی کی جان کو لاحق خطرات میں اضافہ ہوا ہے، عدالت سابق وزیراعظم کی جان کو لاحق خطرات کی تشخیص کو ہلکا نہیں لے سکتی۔
حکم نامے کے مطابق ماضی میں چیئرمین پی ٹی آئی کے کارکنان کا جوڈیشل کمپلیس پر دھاوا بولنے کا واقعہ بھی رونما ہو چکا، جوڈیشل کمپلیس میں سماعت چیئرمین پی ٹی آئی کیلئے محفوظ ہے نہ ہی دیگر افراد کیلئے، ان وجوہات کو مدنظر رکھتے ہوئے عدالت سائفر کیس کا ٹرائل اڈیالہ جیل میں کرنے کا حکم دیتی ہے۔
حکم نامے میں کہا گیا ہے کہ چونکہ چیئرمین پی ٹی آئی کا ٹرائل اڈیالہ جیل میں ہورہا ہے، شاہ محمود قریشی کا بھی اڈیالہ جیل میں ہی ہوگا، چیئرمین پی ٹی آئی کا جیل ٹرائل ایک اوپن ٹرائل ہوگا، ملزمان کے وکلا اور خاندان کے پانچ پانچ افراد کو ٹرائل کی کارروائی دیکھنے کی اجازت ہوگی، عام عوام اور سماعت سننے کے خواہشمد افراد کو ٹرائل کی کارروائی میں بیٹھنے کی اجازت ہوگی، تاہم عوام کو جیل رولز اور مینول اور کمرہ عدالت میں گنجائش کی بنیاد پر ٹرائل میں بیٹھنے کی اجازت ہوگی۔
خصوصی عدالت میں سائفر کیس کی آج ہونے والی سماعت
آفیشل سیکریٹ ایکٹ کے تحت قائم کی گئی خصوصی عدالت کے جج ابو الحسنات محمد ذوالقرنین نے سائفر کیس کی سماعت کی۔ چیئرمین پی ٹی آئی کے وکیل سلمان صفدر، ایف آئی اے پراسیکوٹر شاہ خاور اور ذوالفقار عباس عدالت میں پیش ہوئے۔
عمران خان کو سیکیورٹی خدشات
جیل حکام نےعدالت میں رپورٹ پیش کی جس میں بتایا گیا کہ وہ عمران خان کو پیش نہیں کرسکتے، اسلام آباد پولیس کو اضافی سیکیورٹی کے لیے خط لکھا اور بتایا گیا عمران خان کو سیکیورٹی خدشات ہیں۔
اڈیالہ جیل سپرنٹنڈنٹ نے چیئرمین پی ٹی آئی کو پیش کرنے سے معذرت کرتے ہوئےعدالت کو تحریری طور پر آگاہ کر دیا، ایف آئی اے پراسیکوٹر شاہ خاور نے جیل سپرنٹنڈنٹ کا لیٹر پڑھ کر سنایا۔
وکیل سلمان صفدر کے دلائل
وکیل سلمان صفدر نے عدالت میں مؤقف اختیار کیا کہ آج دو مختلف معاملات عدالت میں ہیں، امید تھی چیئرمین پی ٹی آئی کو پیش کریں گے لیکن ایسا نہیں کیا گیا، البتہ مجھے کچھ تحفظات تھے کہ ہم بہت جلدی میں چل رہے ہیں۔
وکیل سلمان صفدر کا کہنا تھا کہ کوئی بھی ملزم ہے اس کو پیش کرنا جیل انتظامیہ کی ذمہ داری ہے، جیل سماعت کو اسلام آباد ہائی کورٹ نے کالعدم قرار دیا ہے۔ ہم کہتے رہے ان حالات میں ٹرائل نہ کریں، ہم یہ استدعا بھی کرتے رہے پہلے ٹرائل کہاں کرنا ہے اس کو طے کرلیں، ہم جب بھی کچھ کہتے تھے بولا جاتا تھا کوئی اسٹے آرڈر ہے تو بتادیں۔
پی ٹی آئی چیئرمین کے وکیل نے عدالت میں کہا کہ کون سا ایسا کیس ہے جوجلدی میں ختم کردیا جائے، یہ جیسے بھی کریں ان کو عمران خان کو پیش کرنا ہوگا، کس انٹیلیجنس ایجنسی کی بنا پر یہ کہہ رہے کہ جان کو خطرہ ہے، جب ہم کہتے تھے جان کو خطرہ ہے تو یہ کہتے تھے جیسے بھی ہو پہنچیں، اب جیل سے عدالت تک کے سفر میں کوئی رکاوٹ ہے تو وہ بتا دیں۔
وکیل سلمان صفدر نے جیل رپورٹ پڑھ کرسنائی اور کہا کہ اسپیشل کورٹ، اسلام آباد ہائی کورٹ کے فیصلوں کی خلاف ورزی ہورہی ہے، جیل سپرنٹنڈنٹ کا چیئرمین پی ٹی آئی کو اندر رکھنے میں کون سا انٹرسٹ ہے، یہ لیٹر چیئرمین پی ٹی آئی کی حد تک ہے، شاہ محمود قریشی کی حدتک نہیں، شاہ محمود قریشی کو اب تک نہیں پیش کیا گیا، یہ ٹرائل کہا چل سکتا یہ بتا دیں، یہ ٹرائل یہاں پرنہیں چل سکتا اورنہ جیل میں چل سکتا ہے۔
شاہ محمود کے وکیل علی بخاری کے دلائل
وکیل علی بخاری نے اپنے دلائل کا آغاز کرتے ہوئے کہا کہ شاہ محمود قریشی کو کیوں ابھی تک پیش نہیں کیا گیا، اب تو کوئی چارج فریم نہیں ہوا اورنہ کوئی نقل تقسیم ہوئی ہے، شاہ محمودقریشی کو عدالت میں پیش کیا جائے۔
جج ابولحسنات ذوالقرنین نے پراسیکیوٹر سے استفسار کیا کہ کیاعدالت نے ملزمان کو طلب کیا تھا۔ ایف آئی اے پراسیکیوٹر نے جواب دیا کہ جی آپ نے ملزمان کو طلب کیا تھا۔
عدالت نے ریمارکس دیے کہ جتنے مرضی نوٹی فکیشن لائیں کوئی فرق نہیں پڑتا، عوام کو رسائی ہونی چاہئے، میڈیا کو عدالت تک رسائی ہونی چاہئے۔
عدالت نے فریقین کے دلائل کے بعد فیصلہ محفوظ کر لیا۔ اور جج ابو الحسنات ذوالقرنین نے ریمارکس دیئے کہ اس حوالے سے آرڈر پاس کروں گا۔
خصوصی عدالت نے کچھ دیر وقفے کے بعد محفوظ فیصلہ سنا دیا اور ریمارکس دیئے کہ سائفر کیس کی سماعت اڈیالہ جیل میں ہوگی۔
عدالت نے ریمارکس دیے کہ جیل حکام اور سیکیورٹی اداروں نے عمران خان کے حوالے سے خدشات کااظہار کیا ہے، اس لئے سائفر کیس کی آئندہ سماعت جیل میں ہی ہوگی، اوپن کورٹ ہوگی، اور میڈیا اور پبلک کو بھی شرکت کی اجازت ہوگی۔
عدالت نے کہا کہ کیس کی آئندہ سماعت جمعہ کو ہوگی، جس میں پہلے کی طرح 5،5 فیملی ممبران کو بھی اجازت ہوگی۔
واضح رہے کہ خصوصی عدالت نے سفارتی سائفر گمشدگی کیس میں دونوں ملزمان کو آج پیش کرنے کا حکم دے رکھا تھا۔
نوٹیفکیشن کی کوئی قانونی حثیت نہیں
اسلام آباد ہائی کورٹ نے عمران خان کا جیل ٹرائل اور 29 اگست کے بعد کی عدالتی کارروائی کالعدم قرار دی تھی۔
اسلام آباد ہائی کورٹ نے عمران خان کے انٹرا کورٹ اپیل پر فیصلہ دیتے ہوئے کہا کہ عمران خان کے خلاف جیل ٹرائیل سے متعلق 29 اگست ، 12ستمبر، 25 ستمبر، تین اکتوبر اور 13 اکتوبر کو جاری ہونے والے نوٹیفکیشن کی کوئی قانونی حثیت نہیں۔
یہ بھی پڑھیں:
سائفر کیس جیل سے باہر منتقل، عمران کو آئندہ منگل عدالت میں پیش کرنے کا حکم
سائفر رولز اور گائیڈ لائنز کے حصول کیلئے شاہ محمود کی درخواست نمٹادی گئی
عدالتی فیصلے میں کہا گیا تھا کہ وفاقی کابینہ نے 13 نومبر سابق وزیر اعظم کے خلاف سائفر مقدمے کس ٹرائل کرنے کی منظوری دی تھی اور پھر وزارت قانون نے 15 نومبر کو اس کا نوٹیفکیشن جاری کیا تھا، ایسے نوٹیفکیشن کا اطلاق ماضی میں اس مقدمے میں ہونے والی عدالتی کارروائی پر نہیں ہوسکتا۔
اس کے علاوہ عدالت نے آفیشل سیکرٹ ایکٹ کے تحت خصوصی عدالت کے جج کی تعیناتی کو درست قرار دیا تھا۔
دوسری جانب اسلام آباد ہائی کورٹ نے سائفر کیس میں آفیشل سیکریٹ ایکٹ عدالت کو 4 ہفتوں میں سائفر کیس کا ٹرائل مکمل کرنے حکم بھی دے رکھا ہے۔
Comments are closed on this story.