بلوچ طلبہ لاپتہ کیس: وزیراعظم، وزیر دفاع، اور وزیر داخلہ عدالت طلب
اسلام آباد ہائیکورٹ نے بلوچ طلبہ لاپتہ کیس میں وزیراعظم وزیردفاع، اوروزیرداخلہ کو 29 نومبر کو طلب کرلیا، اور ریمارکس دیے کہ ایگزیکٹو کا کام عدالت کر رہی ہیں، کیا معاملہ اقوام متحدہ کو بھیجیں، بے عزتی کروائیں۔
اسلام آباد ہائی کورٹ میں بلوچ طلبہ کی جبری گمشدگی کمیشن عمل درآمد کیس کی سماعت ہوئی، جسٹس محسن اخترکیانی نے سماعت کی۔
اسسٹنٹ اٹارنی جنرل عثمان گھمن نے وزراء کمیٹی اجلاس کی رپورٹ پیش کی، جسے عدالت نے مسترد کردیا۔ جسٹس اختر کیانی نے کمیشن رپورٹ پرعدم اطمنان کا اظہار کرتے ہوئے ریمارکس دیئے کہ اس رپورٹ پرعدالت کیلئے شرم کا مقام ہے، وزیراعظم اور وزیرداخلہ بلوچستان سے تعلق رکھتے ہیں جنہیں احساس ہونا چاہیے تھا یہ بلوچ طلباء کا معاملہ ہے۔
عدالتی حکم پرایڈیشنل اٹارنی جنرل منور اقبال دوگل عدالت میں پیش ہوئے۔ جسٹس محسن اختر کیانی نے ریمارکس دیے یہ 51 بلوچ طلباء کا معاملہ تھا، ہم نے وزیراعظم کومعاملہ بھیجا، ہم سمجھے وزیراعظم آکر کہیں گے یہ ہمارے بچے ہیں۔
جسٹس محسن اختر نے ریمارکس دیے کہ کمیشن میں ہائی پروفائل لوگ شامل تھے، جس کے باوجود کوئی پیشرفت کیوں نہیں ہوئی؟، کمیشن کا اصل مقصد لاپتہ افراد کی بازیاب تھا، عدالت کتنے فیصلے دے چکی ہے، لاپتہ افراد کمیشن نے کوئی کام نہیں کیا یہ بہت بڑا المیہ ہے، یہ کمیشن صرف عدالتوں کے فیصلوں کو بائی پاس کرنے کیلئے بنا ہے۔
عدالت نے ریمارکس دیئے کہ جو کام ایگزیکٹو کا تھا وہ کام عدالت کررہی ہے، کیا ہم یہ معاملہ اقوام متحدہ کو بھیجیں، کیا اپنے ملک کی بے عزتی کروائیں۔
عدالت نے وزیراعظم ، وزیردفاع و داخلہ کو طلب کرنے کے ریمارکس دیے۔ تو ایڈیشنل اٹارنی جنرل طلب نہ کرنے کی استدعا کی۔
جسٹس محسن اختر کیانی نے ریمارکس دیے کہ اس میں ایسی کوئی بات نہیں، یہ کوئی راکٹ سائنس نہیں ہے جن کوبلا رہے ہیں، سب مزاق بنایا جا رہا ہے ،عدالت نے نگراں وزیراعظم انوار الحق کاکڑ، وزراء اور سیکریٹریز دفاع و داخلہ کو 29 نومبر کو طلب کرلیا۔
Comments are closed on this story.