عمران خان اور بشری کے معاملے پر کئی لوگوں نے فون کیے اس لیے خاموش رہا، خاور مانیکا
سابق وزیراعظم عمران خان کی اہلیہ بشریٰ بی بی کے سابق شوہر خاور فرید مانیکا نے چئیرمین تحریک انصاف پر سنگین الزامات کی بارش کردی ہے۔
جیو نیوز کے پروگرام آج شاہزیب خانزادہ میں گفتگو کرتے ہوئے خاور مانیکا نے اپنے تمام گھریلو معاملات کھول کر سامنے رکھ دیئے اور یہ بھی واضح کیا کہ وہ اب تک خاموش کیوں تھے۔
خاور مانیکا کہا کہ ’ہمارے گھر کی تاریخ 1989 سے شروع ہوتی ہے، 1989 میں ہماری شادی ہوئی، ہمارا ہنستا بستا گھر تھا، ہم بڑی ہی خوشگوار زندگی گزار رہے تھے، لوگ ہمارے گھر کی مثال دیا کرتے تھے۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’اسی دوران اسلام آباد میں دھرنے شروع ہوئے، اور دھرنوں کے درمیان پنکی کی یو اے ای میں مقیم بہن مریم وٹو نے پیری مریدی کی آڑ میں عمران خان کو میری بیوی سے متعارف کرایا‘۔
انہوں نے گلوگیر لہجے میں کہا کہ ’ان کا متعارف کرانا کیا ہوا کہ آہستہ آہستہ معاملات اس قدر بگڑ گئے کہ ہمارا گھر ٹوٹ کے رہ گیا اور ہم بکھر کر رہ گئے۔‘
انہوں نے کہا کہ مریم وٹو کے ذریعے تعارف کے بعد ’ان (عمران خان) کا ہمارے گھر میں آنا جانا شروع ہوگیا، اور وہ آنا جانا بڑھتا گیا، اس سے ہم تھوڑے ڈسٹرب بھی تھے، میری والدہ ہمیشہ کہا کرتی تھیں کہ یہ اچھا آدمی نہیں ہے اسے گھر میں مت آنے دو‘۔
خاور مانیکا نے کہا کہ ’میری مدر (والدہ) کی بات میرے دل میں لگی، میں تھوڑا ریزسٹ (مزاحمت) کرتا تھا، یہ دو دفعہ ہمارے گھر لاہور میں آیا، اس کے بعد اس نے اسلام آباد میں ملنا شروع کردیا، میری مسز جب اسلام آباد میں ہوا کرتی تھیں تو وہاں ملاقات ہوجاتی تھی‘۔
خاور مانیکا نے دعویٰ کیا کہ ’اب یہ جو سلسلہ ازدواج میں گئے ہیں اس کا تو ہمیں پتا ہی نہیں تھا، سب سے پہلے نیوز بھی آپ لوگوں نے ہی بریک کی تھی کہ عمران نیازی کا اور پنکی کا نکاح ہوگیا ہے‘۔
انہوں نے بتایا کہ جب عمران خان نے پنکی کو مرشد بنایا اور باقاعدہ ان کی پیر بن گئیں تو ان کا گھر میں آنا جانا شروع ہوا، تو یہ ہوا کہ ان کے ٹیلی فون کی لمبی لمبی کالز جو ہے وہ راتوں کے آخری پہروں میں جاکر ہوا کرتی تھیں، میں تھوڑا ڈسٹرب ہوتا تھا کہ بھئی آپ نے بات کرنی ہے تو دن میں کریں، جو بھی آپ نے راستے کی باتیں اپنے مرید کو بتانی ہیں دن میں بتائیں’۔
انہوں نے کہا کہ ’پھر اس کا ہوا یہ کہ ان کی سہیلی فرح گوگی نے عمران نیازی کے کہنے پر ان کو فون بھی دستیاب کیے اور ان کو نمبرز بھی اور مہیا کیے، اور اس وجہ سے ان کی چھپ کر باتیں ہونا شروع ہوگئیں‘۔
ان کا کہنا تھا کہ ’مجھے اعتراض ہوا کرتا تھا کہ جب میں باہر سے فون کرتا ہوں اور فون بجتا ہے تو آپ کا فون اٹینڈ نہیں ہوتا، پھر میں نوکر کو بھیجتا تھا کہ پتا کرو فون کیوں اٹینڈ نہیں ہورہا تو پتا چلتا تھا کہ یہ صاحب وہاں تشریف فرما ہیں، مجھے برا لگتا تھا کہ میری اجازت لے لیں ، بھلے ان کی پیر ہیں مرشد ہیں، لیکن خاوند کی بھی شریعت میں کوئی اہمیت تو ہے‘۔
انہوں نے کہا کہ ’میری اجازت کے بغیر یہ آکر گھنٹوں بیٹھے رہتے تھے، ایک دن میں نے نوکر کے ہاتھوں فون اندر بھجوا کر بشریٰ بی بی کو ڈانٹا کہ یہ کیا طریقہ ہے کم از کم مجھے بتا دیا کرو کہ اس نے آنا ہے کچھ دیر یا ایک گھنٹہ دو گھنٹے کیلئے، کم از کم مجھے پتا تو ہو، اس کے بعد نوکر نے فون اس کو (عمران خان کو) پکڑایا، جذبات میں آخر میری بہت زیادہ تلخ کلامی بھی ہوئی، کوئی غیرت مند آدمی ہوتا وہ سمجھ جاتا اور پھر اس نوکر کو میں نے کہا کہ اسے گھر سے نکالو، اسے گھر سے بھی نکالا، لیکن شاید اس بندے کو سمجھ نہیں آئی، پنکی اس پر مجھ سے ناراض بھی ہوگئی تھی‘۔
انہوں نے کہا کہ ’میں کہتا تھا آئیں ضرور آئیں، جب میں گھر پر ہوں تب آئیں، یہ عمران خان اور زلفی جب دل کرتا تھا آکر بیٹھ جایا کرتے تھے، دودو گھنٹے بیٹھے رہا کرتے تھے، میں پنکی سے پوچھتا تاھ کہ کیا معاملہ ہے تو مجھے یہی کہتی تھی کہ روحانی تربیت کا معاملہ ہے‘۔
خاور مانیکا نے کہا کہ میں نے سنہ 2000 میں بنی گالہ میں ایک گھر تعمیر کیا تھا یہ چھوٹا سا ایک فارم ہاؤس تھا جس میں ہم چھٹیوں میں رہا کرتے تھے، بشریٰ ’کچھ عرصہ وہاں پر اکیلی رہی ہیں، مجھے اس بات پر اعتراض تھا، اور مجھے سے پوچھے بغیر میری اجازت کے بغیر وہ کئی دفعہ عمران خان سے ملنے بنی گالہ چلی گئیں اور گھنٹوں وہاں گزارتی تھیں‘۔
انہوں نے کہا کہ ’طلاق سے چھ مہینے پہلے تک تو ایسا کوئی معاملہ تھا ہی نہیں، جب یہ اسلام آباد سے واپس گئی ہے تو اس وقت اس کی طبیعت بدلی ہوئی تھی، اس نے میرے ساتھ 28 سال گزارے ہیں ، 28 سال جس کے ساتھ گزارے جائیں اس کی عادات اطوار کا پتا ہوتا ہے، اس میں اچھی خاصی تبدیلی آچکی تھی، اور آنے کے بعد اس نے اصرار کیا کہ میں یہاں لاہور والے گھر میں نہیں رہنا چاہوں گی میں اپنے والدہ یا بھائی کے گھر جانا چاہتی ہوں، میں نے کہا ٹھیک ہے، کیونکہ مجھے کچھ احساس ہورہا تھا، تو یہ سامان اٹھا کر اپنے گھر چلی گئی‘۔
انہوں نے بتایا کہ میں نے ایک بار انہیں وہاں جاکر کہا بھی کہ چلنا نہیں ہے؟ انہوں نے کہا کہ میاں صاحب ابھی نہیں۔ ’اس کے بعد فرح گوگی کا میسیج آیا کہ آپ ان کو طلاق دے دیں، میں پھر بشریٰ کے گھر گیا اور کہا کہ فرح گوگی کہہ رہی ہے آپ کو طلاق دوں آپ کیا کہنا چاہ رہی ہو۔ اس نے خاموش ہوکر کوئی جواب نہیں دیا اور پنا سر گھٹنوں میں نیچے کرلیا، میں غصے میں واپس آگیا‘۔
انہوں نے کہا کہ ’اس بات کو گزرے مہینہ ہوا ہوگا کہ مجھے پھر فرح کا میسیج آیا کہ آپ اس کو طلاق دیں، پچھلے چھ سات ماہ میں میرا بھی دل بھر گیا تھا، میں طلاق کی تحریر لکھ کر فرح کے ہاتھ ہی اسے بھجوا دی‘۔
انہوں نے بتایا کہ 14 نومبر 2017 کو طلاق ہوئی اور یکم جنوری 2018 کو ان کا نکاح ہوا۔ ’عدت تو تب پوری ہوتی نا جب 14 نومبر کے بعد تین مہینے پورے کرتی‘۔
ان کا کہنا تھا کہ طلاق بھجوانے کے بعد ہمارے گھر میں فرح گوگی کو داخلے کی اجازت بند ہوگئی تھی، طلاق بھجوانے کے ایک مہینے بعد فرح گوگی نے مجھے فون کیا کہ آپ کی جو طلاق ہے اس پر تاریخ بدلنی ہے، میں حیران بھی ہوا اور مجھے غصہ بھی آیا، میں حیران اس بات پر ہوا کہ کبھی طلاق کی بھی تاریخی بدلی جاتی ہیں؟ یہ تو ایک شرعی عمل ہے، مجھے غصہ آیا میں نے اس کا فون بند کردیا۔
خاور مانیکا کے مطابق زلفی بخاری اور فرح کے فون آئے کہ عمران نے وزیراعظم بننا ہے، آپ خاموش رہیں۔ میں نے اس کو ہلکا لیا اور اسے دھمکی نہیں سمجھا، لیکن اس کے بعد انہوں نے اور لوگوں سے مجھے فون کرائے، اس وقت مجھے احساس ہوا کہ یہ تو میرے بچوں کی زندگی داؤ پر لگا کر رکھ دیں گے تو میں خاموش ہوگیا۔
بشریٰ بی بی کے سابق شوہر کا کہنا تھا کہ میں نے پنکی کو طلاق 14 نومبر 2017 کو دی، اس کے ڈیڑھ ماہ بعد ہی اس نے عمران خان سے شادی کرلی، اس شادی کا مجھے اور میرے بچوں کو علم ہی نہیں تھا اس لیے ”خبر رساں اداروں“ نے جب شادی کی خبر بریک کی تو اس کی تردید کی تھی۔
Comments are closed on this story.