Aaj News

اتوار, نومبر 03, 2024  
01 Jumada Al-Awwal 1446  

نگراں وزیراعلیٰ سندھ نے فوجی عدالتوں کے خلاف اپیل دائر کرنے کی تردید کردی

جسٹس(ر) مقبول باقر کا انٹریو، وزیراعلیٰ ہاؤس کے ترجمان نے بیان بھی جاری کیا
اپ ڈیٹ 18 نومبر 2023 08:05pm

ترجمان نگران وزیراعلیٰ سندھ نے فوجی عدالتوں میں سویلینز کے ٹرائل کے لیے سپریم کورٹ میں اپیل دائر کرنے کی تردید کر دی ہے۔

خود وزیراعلیٰ سندھ جسٹس (ر) مقبول باقر نے بھی ایک انٹرویو میں اپیل دائر کیے جانے کی تردید کی ہے۔

ترجمان نگران وزیراعلیٰ سندھ عبدالرشید چنا نے کہا کہ حکومت سندھ نے سویلینز کی ملٹری کورٹ میں ٹرائل کے لیے کوئی اپیل دائر نہیں کی۔

انہوں نے مزید کہا کہ یہ تاثر بے بنیاد ہے کہ حکومت سندھ نے ملٹری کورٹس میں سویلینز کے ٹرائل کے لیے سپریم کورٹ میں اپیل دائر کی ہے۔

واضح رہے کہ گزشتہ روز یہ اطلاعات سامنےآئی تھیں کہ حکومتِ سندھ نے پاکستان آرمی ایکٹ 1952 کے تحت عام شہریوں کے ٹرائل کو ”غیر آئینی“ قرار دینے کے پانچ رکنی بینچ کے فیصلے کے خلاف سپریم کورٹ میں اپیل دائر کردی ہے۔

ہفتہ کو نگران وزیراعلیٰ جسٹس ریٹائرڈ مقبول باقر نے بی بی سی اردو کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا کہ ’سندھ حکومت عام شہریوں کے فوجی عدالتوں میں مقدمات چلانے کے حق میں نہیں ہے۔‘

انھوں نے کہا کہ ’ہماری پوزیشن بہت واضح ہے کہ ہم سپریم کورٹ کے فیصلے کے خلاف کسی بھی قسم کی اپیل دائر نہیں کریں گے۔‘

رپورٹس کے مطابق چیف سیکریٹری سندھ کی جانب سے دائر کی گئی اپیل میں آئین کے آرٹیکل 184 (3) کے تحت آرمی ایکٹ کی دفعات کے خلاف دائر درخواستوں کے قابل سماعت ہونے پر سوال اٹھایا گیا۔

اس میں یہ بھی کہا گیا کہ قانون کی بعض شقوں کو کالعدم قرار دینے کا فیصلہ عدالت عظمیٰ کی جانب سے قائم کی گئی سابقہ نظیروں سے متصادم ہے۔

اپیل کے مطابق یہ درخواستیں چیئرمین پی ٹی آئی عمران خان کی گرفتاری کے بعد 9 مئی کو فوجی تنصیبات پر حملہ کرنے والوں کے خلاف کی جانے والی کارروائی کے جواب میں دائر کی گئی تھیں۔

اپیل میں کہا گیا کہ 9 مئی کے حملے بظاہر بہت مربوط تھے اور ان کا مقصد پاکستان کی مسلح افواج کے مورال کو متاثر کرنا تھا، ان حملوں کا مقصد مسلح افواج کے اندر دراڑ پیدا کرنا اور اس کی کمان اور کنٹرول کو کمزور کرنا تھا۔

اپیل میں مزید کہا گیا کہ حملوں کے نتیجے میں فوجی تنصیبات اور عمارتوں کو شدید نقصان پہنچا، فوجی جوان اور دیگر اہلکار زخمی بھی ہوئے۔

اپیل میں کہا گیا ہے کہ آئین پرامن مظاہروں کے حق کی ضمانت دیتا ہے لیکن آئین کسی بھی شخص کو تشدد کا راستہ اختیار کرنے، کسی فوجی و دیگر حساس تنصیبات، عمارتوں سمیت املاک کو تباہ کرنے یا نقصان پہنچانے کا حق نہیں دیتا۔

اس میں کہا گیا ہے کہ پولیس نے مشتبہ افراد کے خلاف ایف آئی آرز درج کیں اور ملزمان کو قانون کے مطابق حراست میں لیا گیا، درخواستیں کورٹ مارشل کے ذریعے بعض ملزمان کے ٹرائل کو چیلنج کرنے کے لیے دائر کی گئی تھیں۔

اس میں مزید کہا گیا ہے کہ اپیل کنندہ نے سپریم کورٹ سے رہنمائی طلب کی کہ بنیادی حقوق کے تحفظ کے لیے کوئی اضافی اقدامات کیے جائیں۔

اپیل میں کہا گیا ہے کہ اپیل کنندہ بنیادی حقوق کو برقرار رکھنے کے لیے پوری طرح پرعزم ہے اور کسی بھی طرح سے یہ استدلال نہیں کر رہا کہ 9 اور 10 مئی 2023 کے واقعات کے ملزمان یا کوئی بھی افراد جن پر کورٹ مارشل کے ذریعے مقدمہ چلایا جارہا ہے وہ منصفانہ ٹرائل اور مناسب قانونی کارروائی کے حقدار نہیں ہیں۔

اپیل میں کہا گیا ہے کہ اپیل کنندہ یہ دعویٰ کرتا ہے کہ آرمی ایکٹ کے تحت ہونے والے کورٹ مارشل کو اس عدالت نے متعدد مواقع پر آئین، منصفانہ ٹرائل کے اصولوں اور قانون کے مناسب عمل سے پوری طرح ہم آہنگ قرار دیا ہے۔

Supreme Court

Caretaker CM Sindh

Civilians Trial in Military Courts

Appeal