جب اسرائیلی وزیراعظم کو حماس کے رہنما کی جان بچانا پڑی
یہ بات ہے 1997 کی، حماس کے رہنما خالد مشعل اردن کے ایک اسپتال میں بستر پر زندگی اور موت کی کشمکش میں تھے، ان کے خون میں زہر بہہ رہا تھا اور اس سے ان کا نظام تنفس آہستہ آہستہ کام کرنا چھوڑ رہا تھا۔ ان کے پھیپھڑوں میں ہوا مشین سے پمپ کی جارہی تھی اور خالد مشعل کے پاس زندہ رہنے کے لیے کچھ ہی دن تھے۔
ایک ہی تریاق تھا جو حماس کے رہنما کی جان بچا سکتا ہے۔ لیکن جو واحد شخص یہ تریاق فراہم کر سکتا تھا وہ وہی تھا جس نے انہیں مارنے کی کوشش کی تھی، اسرائیل کے وزیر اعظم بنجمن نیتن یاہو۔
ستمبر 1997 میں اسرائیل کے اندر کئی خودکش حملوں کا بدلہ لینے کیلئے موساد کے جن ایجنٹس نے اردن کے دارالحکومت عمان کی ایک سڑک پر ایک فلسطینی کے کان میں زہر کا اسپرے کیا وہ فرار ہوتے ہوئے پکڑے گئے تھے۔ اور وہ فلسطینی کوئی اور نہیں بلکہ حماس کے سربراہ خالد مشعل تھے۔
اردن کے شاہ حسین نے خالد مشعل کی موت کی صورت میں اسرائیلیوں پر مقدمہ چلانے کا اعلان کیا۔ جرم ثابت ہونے پر ایجنٹوں کو سزائے موت کا سامنا کرنا پڑتا۔
جس کے بعد ایک بین الاقوامی بحران سے بچنے کے لیے امریکی صدر بل کلنٹن نے مداخلت کی۔ کیونکہ اس سے اسرائیل کے عرب ممالک سے امن معاہدوں پر اثر پڑتا۔
انہوں نے نیتن یاہوپر زور دیا کہ وہ اس زہر کا توڑ فراہم کریں۔
اسرائیلی وزیراعظم امریکی حکم پر مجبور ہوگئے اور بادشاہ سے ذاتی طور پر معافی مانگنے کے لیے عمان بھی جا پہنچے
خالد مشعل کو ایک نئی زندگی ملی اور ان کا قد ”زندہ شہید“ کے طور پر بلند ہوگیا۔
اسرائیل اپنے سب سے بڑے دشمنوں میں سے ایک کو مارنے کے بجائے اسے زندہ کرنے کر مجبور ہوگیا تھا۔
چند سال پہلے الجزیرہ نے ایک 90 منٹ کی دستاویزی فلم نشر کی جس میں یہ کہانی بیان کی گئی۔
اس میں 25 ستمبر 1997 کی صبح خالد مشعل کے دفتر کے باہر موساد کے دو ایجنٹوں کو انتظار کرتے دکھایا گیا، جیسے ہی خالد مشعل قریب آئے، ایک اسرائیلی ایجنٹ نے بازو پر بندھی پٹی میں چھپائے ایک ڈیوائس سے خالد مشعل کے کان میں پین کلر فینٹینائل کا اسپرے کیا۔
اسرائیلیوں کو امید تھی کہ ان کا تبدیل شدہ فینٹینائل کایہ اسپرے مورفین سے سو گنا زیادہ طاقتور ہے جو مشعل کو ایسی نیند سلا دے گا جس سے وہ کبھی بیدار نہیں ہو پائیں گے۔ جبکہ ایجنٹس خاموشی سے کھسک جائیں گے، جس سے کارروائی کا کوئی ثبوت نہیں بچے گا۔
لیکن یہ منصوبہ شروع سے شک کی نظر میں آگیا تھا، مشعل کے محافظوں کو موساد ایجنٹوں کے حملہ کرنے سے پہلے ہی شبہ ہوچکا تھا، اور وہ ان کا پیچھا کرنے اور پکڑنے میں کامیاب رہے۔ تین دیگر ایجنٹ بعد میں شہر میں دیگر مقام پر ملے، سبھی کینیڈا کے پاسپورٹ کا استعمال کرتے ہوئے اردن میں داخل ہوئے تھے۔
مشعل کو معلوم تھا کہ حملہ آوروں نے کچھ تو عجیب کرنے کی کوشش کی ہے، لیکن سوچا کہ وہ اسے نقصان پہنچانے میں ناکام رہے ہیں۔
بعد میں مشعل نے بتایا کہ ’میں نے اپنے کان میں ایک تیز آواز محسوس کی، یہ ایک تیز چیز کی طرح تھا، بجلی کے جھٹکے کی طرح۔ تب میرے جسم میں بجلی کے جھٹکے کی طرح سنسنی پیدا ہوئی۔ لیکن بظاہر میں ٹھیک تھا۔
لیکن پھر ان کے سر میں شدید درد ہوا اور اس دن کے بعد انہیں الٹیاں آنا شروع ہوئیں، تب مشعل نے جانا کہ اس حملے سے درحقیقت اس کی جان کو خطرہ ہے۔ انہیں اردن کے ایک اسپتال لے جایا گیا۔
اردن کے شاہ اردن کو صورت حال پر بریفنگ دی گئی، جس کے بعد شدید غصے میں شاہ حسین نے آدھی رات تک اسرائیل سے تعلقات منقطع کرنے کی دھمکی دی۔
واشنگٹن میں، بل کلنٹن کے مشرق وسطیٰ کے چیف مذاکرات کار ڈینس راس کو صبح سویرے نیتن یاہو کی کال موصول ہوئی، جنہوں نے بحران کی وضاحت کی اور کلنٹن سے فوری بات کرنے کا مطالبہ کیا۔ راس اسرائیل کی لاپرواہی سے دنگ رہ گئے۔
ان کی 2004 کی یادداشت، دی مسنگ پیس کے مطابق ڈینس راس نے اسرائیلی وزیراعظم سے پوچھا، ’آپ سوچ کیا رہے تھے؟‘۔
راس نے نیتن یاہو سے پوچھا کہ آپ اردنیوں کے زریعے مشعل کو خاموشی سے پکڑنے کی کوشش کیوں نہیں کی؟ کیا آپ کے ذہن میں یہ نہیں آیا کہ کچھ غلط ہو سکتا ہے؟’
راس لکھتے ہیں کہ ’میں یہ سن کر حیران رہ گیا تھا جب نیتن یاہو نے جواب دیا، ”نہیں“۔‘
کلنٹن نے اردن اور اسرائیل کے درمیان ایک بڑے امن معاہدے کو بچانے کی کوشش میں آنے والے سفارتی بحران سے بچنے کیلئے ثالثی کی جس پر چند ہفتوں بعد دستخط کیے جانے تھے۔
نیتن یاہو نے بالآخر اردنی ڈاکٹروں کو تریاق کا فارمولا فراہم کیا، جنہیں اسرائیلیوں کی طرف سے براہ راست فراہم کردہ کسی کیمیکل پر بھروسہ نہیں تھا۔
نیتن یاہو نے بادشاہ کے بھائی سے ذاتی طور پر معافی بھی مانگی، جس نے انہیں ملنے سے انکار کر دیا تھا۔
گرفتار اسرائیلی ایجنٹس کی واپسی کو یقینی بنانے کے لیے نیتن یاہو نے حماس کے نابینا اور مفلوج روحانی رہنما شیخ احمد یاسین کو بھی جیل سے رہا کیا۔
راس لکھتے ہیں کہ ’حماس کی قیادت کو ملک سے باہر ہونے والے نقصان کا اندازہ لگوانے کے لیے جو آپریشن شروع ہوا، اس کا اختتام اسرائیل نے حماس کے روحانی پیشوا کو ایک ہیرو کے طور پر غزہ واپس آنے کی اجازت دے کر کیا۔‘
مشعل بھی ہیرو بن کر ابھرے۔ ان کے بڑھے ہوئے قد نے انہیں سات سال بعد 2004 میں حماس کا اعلیٰ سیاسی عہدہ سنبھالنے میں مدد فراہم کی، کیونکہ اسرائیل نے اس بار ان کے پیشرو عبدالعزیز الرنتیسی کو ان کی گاڑی پر میزائل داغ کر ہلاک کردیا تھا۔ شیخ یاسین بھی مارچ 2004 میں غزہ سٹی کی مسجد سے نکلتے ہوئے اسرائیلی ہیلی کاپٹر کا نشانہ بن گئے تھے۔
Comments are closed on this story.