Aaj News

جمعہ, نومبر 22, 2024  
19 Jumada Al-Awwal 1446  

عرب لیگ اور او آئی سی اجلاس میں اسرائیل کے خلاف 5 نکاتی منصوبے پر ممالک تقسیم

حماس نے تین نکاتی تجویز پیش کردی
اپ ڈیٹ 12 نومبر 2023 05:08pm
ریاض میں اسلامی تعاون تنظیم (OIC) کے سربراہی اجلاس میں مسلم ممالک کے رہنماؤں کی شرکت (تصویر بذریعہ رائٹرز)
ریاض میں اسلامی تعاون تنظیم (OIC) کے سربراہی اجلاس میں مسلم ممالک کے رہنماؤں کی شرکت (تصویر بذریعہ رائٹرز)

سعودی عرب کے دارالحکومت ریاض میں او آئی سی اور عرب لیگ کا مشترکہ اجلاس ہوا جس میں غزہ کی صورت حال پر گفتگو کی گئی لیکن اس اجلاس کو نامکمل اور منقسم قرار دیا جارہا ہے۔ اجلاس میں اسرائیل کے خلاف پانچ اقدامات کی تجاویز پیش کی گئیں جن کی چار ممالک نے مخالفت کی۔

ایران کی طرف سے پیش کی جانے والی سخت ترین تجویز، جس میں تمام رکن ممالک سے اسرائیلی فوج کو ’دہشت گرد‘ قرار دینے کے لیے کہا گیا تھا، سے لیکر شام کے صدر بشار الاسد کی طرف سے پیش کی جانے والی تجویز جس میں اسرائیل کے ساتھ سفارتی تعلقات منقطع کرنے کا مشورہ دیا گیا تھا، ان میں شامل تھیں۔

عرب سفارت کاروں نے جو کچھ میڈیا کو بتایا ہے اس کے مطابق لبنان اور الجزائر نے عرب لیگ میں اسرائیل کو تیل کی فراہمی روک دینے کی تجویز دی تھی جس کی متحدہ عرب امارات اور بحرین نے مخالفت کی تھی۔

اسرائیل کے خلاف 5 نکاتی منصوبہ

دوسری جانب فلسطین کے سیاسی تجزیہ کار فراس یاغی نے بتایا کہ عرب لیگ پانچ اہم شقوں پر منقسم ہے جو اپنائی نہیں جاسکیں، جس کی وجہ سے عرب لیگ اور اسلامی تعاون تنظیم کے سربراہی اجلاس کے انضمام کی وجہ بنا۔

فراس یاغی کے مطابق وہ شقیں جن کی 11 ریاستوں نے توثیق کی اور 4 ریاستوں نے مسترد کر دی یہ ہیں۔

  • اسرائیل کو اسلحہ اور گولہ بارود کی فراہمی کے لیے عرب ممالک میں امریکی اور دیگر فوجی اڈوں کے استعمال کو روکنا۔
  • اسرائیل کے ساتھ عرب سفارتی، اقتصادی، سیکورٹی اور فوجی تعلقات کو منجمد کرنا۔
  • جارحیت کو روکنے کے لیے دباؤ ڈالنے کے لیے تیل اور عرب اقتصادی صلاحیتوں کو استعمال کرنے کی دھمکی۔
  • اسرائیلی سویلین پروازوں کو عرب فضائی حدود میں پرواز کرنے سے روکنا۔
  • ایک عرب وزارتی کمیٹی کی تشکیل جو کہ فوری طور پر نیویارک، واشنگٹن، برسلز، جنیوا، لندن اور پیرس کا سفر کرے گی تاکہ غزہ پر اسرائیلی جارحیت کو روکنے کے لیے عرب سربراہی اجلاس کی درخواست کو پہنچا سکے۔

فراس کے مطابق فلسطین، شام، الجزائر، تیونس، عراق، لبنان، کویت، قطر، عمان، لیبیا، یمن وہ عرب ممالک ہیں جنہوں نے اس منصوبے کی تجویز دی اور تائید کی۔

تاہم، فراس کے مطابق جن چار ممالک نے اس منصوبے کو مسترد کیا ان کا نام نہیں بتایا گیا۔ جن ممالک نے ووٹنگ سے پرہیز کیا ان کا ذکر بھی نہیں کیا گیا۔

بی بی سی کے مطابق تیل روکنے کی تجویز کی مخالفت متحدہ عرب امارات اور بحرین نے کی۔

فلسطین پر مسلمان رہنما ’پہلے سے زیادہ منقسم‘

الجزیرہ کے نمائندے ہاشم احلبرہ نے اجلاس پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ ریاض میں فلسطین پر آج کا ہنگامی اجلاس منقسم مسلم اور عرب دنیا کی تصویر کشی کرتا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ سیکورٹی کے نقطہ نظر سے جنگ کے بعد غزہ کے ساتھ کیا ہوگا، فلسطینی ریاست کے حوالے سے تفصیلات پر اختلاف کے بارے میں بات کرنے اور منصوبہ بندی کی اجلاس میں نمایاں کمی تھی۔

ہاشم احلبرہ نے کہا کہ ہم مسلم اور عرب دنیا میں کسی ایسی دہلیز پر نہیں پہنچے ہیں جہاں رہنما اکٹھے ہوں گے اور کہیں گے کہ ’یہ ایک اہم موڑ ہے اور ہمیں اسرائیل کے خلاف سخت موقف اختیار کرنا ہوگا۔‘

ان کا کہنا تھا کہ جہاں تک غزہ میں جنگ بندی اور امداد کے لیے سربراہی اجلاس کے مطالبات کا تعلق ہے، اس پر عمل درآمد کرنا ریاض میں موجود رہنماؤں کے لیے انتہائی مشکل ہوگا۔

ہاشم کے مطابق ’انہیں انتظار کرنا پڑے گا اور امید ہے کہ امریکی اسرائیلیوں پر انسانی بنیادوں پر توسیعی وقفے شروع کرنے کے لیے مزید دباؤ ڈالیں گے اور مزید امداد کو غزہ تک پہنچنے کی اجازت دیں گے‘۔

بی بی سی کے مطابق ہفتے کے روز ہونے والے اجلاس میں سربراہان مملکت کی سرکاری تقاریر ختم ہونے اور حتمی بیان کی اشاعت میں لمحہ بہ لمحہ تاخیر کے کئی گھنٹے بعد بالآخر یہ بات واضح ہو گئی کہ اسلامی تعاون تنظیم کے اجلاس میں اسرائیل کے خلاف مشترکہ کارروائی کا کوئی معاہدہ نہیں ہو پایا۔

حماس کا ردعمل

حماس کے ترجمان اسامہ حمدان نے اجلاس پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ عرب ممالک اور دیگر مسلمان رہنماؤں کو تین چیزوں پر توجہ دینی چاہیے۔

بیروت سے الجزیرہ سے بات کرتے ہوئے حماس کے ترجمان اسامہ حمدان نے کہا کہ تین چیزیں ایسی ہیں جن پر عرب اور مسلم رہنماؤں کو توجہ دینی چاہیے۔ اول یہ کہ فلسطینیوں کے خلاف اسرائیلی حملوں اور نسل کشی کو روکا جائے، انہوں نے ممالک سے اسرائیل کے ساتھ تعلقات منقطع کرنے کا مطالبہ کیا۔

انہوں نے کہا کہ دوسرا پوائنٹ انسانی اور طبی امداد اور ایندھن بھیجنا ہے۔ جبکہ تیسرا اور سب سے اہم ایک آواز میں بات کرنی ہوگی کہ فلسطینی کاز کو فلسطینیوں کے حقوق کی بنیاد پر حل کیا جانا چاہیے، نہ کہ کسی اور بنیاد پر’۔

ان کا کہنا تھا کہ ’گزشتہ تین دہائیوں میں امن کا عمل اسرائیل کی ضروریات کے تحت تشکیل دیا گیا تھا اور یہی ناکامی کا سبب ہے۔‘

Saudi Arabia

Riyadh

Arab League

OIC Meeting

Gaza War