سورج ہمارے تصور سے بھی کہیں چھوٹا ہے، سائنسدانوں کا نیا دعویٰ
زمین اور مریخ سمیت نظام شمسی کے دیگر سیارے تو ستاروں سے کئی گناہ چھوٹے ہوتے ہیں مگر اب سائنسدانوں نے سورج کو ہمارے تصور سے بھی کہیں چھوٹا ہونے کا دعویٰ کیا ہے۔
سائنس الرٹ کی ایک رپورٹ کے مطابق دو ماہرین فلکیات کی ایک ٹیم کو اب اس بات کے شواہد ملے ہیں کہ ہمارے سورج کا دائرہ پچھلے تجزیوں کے مقابلے میں کئی گناہ پتلا ہے۔
رپورٹس میں بتایا گیا کہ پیئر ریویو سے گزرنے والے نئے نتائج سورج کے اندرونی حصے کے گرم پلازما کے اندر پیدا ہونے والی اور پھنسی ہوئی ساؤنڈ ویویز پر مبنی ہیں، جسے ’پریشر‘ یا پی موڈز کہا جاتا ہے۔
ٹوکیو یونیورسٹی سے تعلق رکھنے والے ماہرین فلکیات ماساو ٹاکاٹا اور کیمبرج یونیورسٹی کے ڈگلس گف کے مطابق پی موڈ کے ذریعے سورج کے اندرونی حصے کو دیگر لہروں کے مقابلے میں ’متحرک طور پر زیادہ مضبوط‘ انداز میں دیکھا جا سکتا ہے۔
اس کا کیا مطلب ہے کہ سورج کو ایک بجتی ہوئی گھنٹی کے طور پر تصور کرنا آسان ہے، اگرچہ ایک بار بجنے والی گھنٹی نہیں، اسے اسٹینفورڈ یونیورسٹی کے سائنس دانوں نے مسلسل ریت کے بہت سے چھوٹے دانوں کو آُپس سے ٹکرانے کے طور پر بیان کیا ہے۔
یہ تمام ہلچل لاکھوں ساؤنڈ ویویز یا ’موڈز‘ پیدا کرتی ہے، جن کی پیمائش سائنسدان دور دور سے کر سکتے ہیں۔
پی لہروں کے پش اینڈ پل کے ساتھ ساتھ ایسی لہریں بھی ہوتی ہیں جو کشش ثقل کی طاقت کے تحت اوپر نیچے گرتی ہیں، جسے جی موڈ یا ایف موڈ اور جب وہ کسی ستارے کی سطح کے قریب واقع ہوتے ہیں تو اسے ایف موڈ کہا جاتا ہے۔
جیسے جیسے ستارے زیادہ گھنے ہو تے تو اس طرح دوسرے موڈز بھی پیدا ہوتے ہیں جو شے کی خصوصیات کو بیان کرنے کے لئے استعمال کیے جاسکتے ہیں۔
ایف موڈز خاص طور پر سورج کے اندرونی حصے میں گھومنے والے گرم پلازما کا مطالعہ کرنے جب کہ پی موڈ سورج کے ’کروی ہارمونکس‘ کو جمع کرنے کے لئے سب سے زیادہ مفید ہیں۔
اس کی وجہ یہ ہے کہ پی موڈ سورج کے اندرونی حصے میں دباؤ کے اتار چڑھاؤ کے ذریعے پیدا ہوتے ہیں جیسے ہی یہ لہریں باہر کی طرف بڑھتی ہیں وہ سورج کی سطح (اس کے فوٹواسفیئر) سے ٹکراتی ہیں اور سورج کی سطح کے کسی دوسرے حصے سے نکلنے کے لئے ہنگامہ خیز پلازما کے ذریعے سفر کرتے ہوئے ایک بار پھر اندر کی طرف عکاسی کرتی ہیں۔
Comments are closed on this story.