Aaj News

جمعہ, نومبر 22, 2024  
19 Jumada Al-Awwal 1446  

ریاست مجاہدین کو غزہ جانے کی اجازت دے، مولانا فضل الرحمان

'اسلامی ممالک فلسطین کی عسکری حمایت کریں، تاہم او آئی سی اس کا فیصلہ کرے'
اپ ڈیٹ 09 نومبر 2023 01:04am

جمیعت علمائے اسلام (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمان نے اپیل کی ہے کہ ریاست مجاہدین کو غزہ جانے کی اجازت دے۔

فارن میڈیا کے نمائندگان سے گفتگو کرتے ہوئے مولانا فضل الرحمان نے کہا کہ ’میں مطالبہ کرتا ہوں کہ یہاں سے مجاہدین کو غزہ میں لڑنے کی اجازت دی جائے لیکن ریاست ہی حتمی اختیار ہے‘۔

ایک سوال کے جواب میں ان کا کہن اتھا کہ ہم مغربی دنیا کے خلاف سیاسی، اقتصادی اور دفاعی محاذوں پر لڑ رہے ہیں۔ کوئی بھی ہم پر براہ راست قابض نہیں ہے۔ وہ ہمیں سیاسی اور معاشی طور پر نچوڑنے کی کوشش کرتے ہیں جس کا اثر ہم پر پڑتا ہے۔ تو ہم ان کو اسی تناظر میں جواب دے رہے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ سیاسی حکمت عملیوں کا جواب سیاسی ہے مسلح لڑائی نہیں۔ لہٰذا پاکستان سمیت ہر ریاست کی اپنی حکمت عملی ہے۔

انہوں نے کہا کہ مسئلہ فلسطین کے حوالے سے قائد اعظم کا جو موقف قیام پاکستان سے پہلے تھا وہی موقف اب بھی ہے۔ قائد اعظم نے اقوام متحدہ کی تجویز کو مسترد کیا اور امریکی صدر کو خط لکھا کہ فلسطین کو دو ریاستی تصور کے ساتھ قبول نہیں کرسکتے۔

مولانا فضل الرحمان نے کہا کہ فلسطین کی سرزمین کو تقسیم نہیں کیا جا سکتا۔ اسرائیل اور فلسطینی حالت جنگ میں ہیں جنگ میں کوئی بھی اقدام کیا جاسکتا ہے۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ امریکا اور برطانیہ براہ راست فلسطین میں اپنی فوجیں لے آئے ہیں، حماس کے مجاہدین کے ساتھ جنگ نہیں بلکہ براہ راست غزہ شہر پر حملے کیے جا رہے ہیں۔ اسپتالوں اور اسکولوں پر حملے ہو رہے ہیں۔

انہوں نے مطالبہ کیا کہ اسرائیل کو جنگی مجرم اور جنگی جرائم کا مرتکب قرار دیا جائے۔

مولانا فضل الرحمان نے کہا کہ قضیہ فلسطین کے براہ راست فریق فلسطینی ہیں ان کے بغیر کوئی حل ممکن نہیں۔

انہوں نے کہا کہ مسلم اُمّہ اپنے بھائیوں کے ساتھ اس طرح نہیں کھڑے جس طرح مغربی دنیا اسرائیل کے ساتھ کھڑے ہیں۔ آج انسانیت کا قتل ہورہا ہے، بچوں بوڑھوں اور خواتین کو قتل کیا جا رہا ہے، کیا اس کے بعد بھی مغرب کو انسانی حقوق کا علمبردار کہا جائے گا۔ کیا ان کو یاد نہیں کہ نازیوں نے ان کا کیسے قتل عام کیا، کیا اس کا بدلہ فلسطینیوں سے لیا جائے گا؟

مولانا فضل الرحمان نے کہا کہ اسرائیل کو تسلیم کرنے کا خواب بکھر گیا اب دنیا کو ایک نئے زاویے سے سوچنا ہوگا۔ اسرائیلی اس خطے میں فرعون کے جانشین ہیں، موسیٰ کے جانشین فلسطینی ہیں۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ ہم نے مطالبہ کیا کہ او آئی سی کا سربراہی اجلاس بلایا جائے۔ سعودی عرب نے اجلاس طلب کیا ان کا شکر گزار ہوں، فلسطینی قیادت کا بھی مطالبہ تھا کہ او آئی سی کا اجلاس بلایا جائے، اس میں حماس کے نمائندوں کو دعوت دی جائے ان کے بغیر یہ اجلاس نامکمل ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ جے یو آئی کا اوّل روز سے موقف فلسطینیوں کی حمایت کا رہا ہے۔ ہم نے پشاور، کوئٹہ اور کراچی میں بڑے جلسے کئے۔ امریکا، برطانیہ، فرانس، یورپ میں مظاہرے ہوئے ہیں۔ ان کو بھی عوام کا احترام کرنا ہوگا ورنہ جمہوریت کی بات چھوڑ دیں۔ اگر بند کمروں میں فیصلے کرنے ہیں تو پھر عوام کی کوئی حیثیت نہیں۔

مولانا فضل الرحمان نے کہا کہ انڈیا کی میڈیا پر تعجب ہے کہ ان کو اتنی تکلیف کیوں ہے، ایسا لگتا ہے کہ ہم نے ان پر حملہ کیا ہے، اگر اپنی سرزمین کو حاصل کرنے کی جدوجہد دہشت گردی ہے تو پھ گاندھی جی کی جدوجہد کو کیا نام دیں گے۔ کیا یہ حق فلسطین کو نہیں دیں گے جن کی زمین پر قبضہ ہے؟

سربراہ جے یو آئی نے کہا کہ فلسطین فلسطینیوں کا ہے اور رہے گا، تحریکوں میں اتار چڑھاؤ آتا رہے گا، ہم جو حق اپنے لئے جائز سمجھتے ہیں وہ فلسطینیوں اور افغانوں کے لئے بھی جائز سمجھتے ہیں، جو آزادی کی جنگ لڑتا ہے آج اس کو دہشت گرد کہا جاتا ہے؟

ان کا مزید کہنا تھا کہ پاکستان نے اقوام متحدہ میں جو موقف اختیار کیا ہے اس کو خراج تحسین پیش کرتے ہیں۔ ہم سیاسی لوگ ہیں، جو موقف فلسطین کے حوالے سے الیکشن سے پہلے ہے وہی الیکشن کے بعد بھی ہوگا، نگران وزیر اعظم نے جو دو ریاستی تصور پیش کیا وہ قائد اعظم کے تصور کی نفی ہے۔ فلسطین نے پاکستان کے موقف کو جرات مندانہ کہا اور کہا کہ وہ قیادت کرے۔

انہوں نے کہا کہ اسلامی ممالک فلسطین کی عسکری حمایت کریں، تاہم او آئی سی اس کا فیصلہ کرے۔

Gaza

Molana Fazal ur Rehman

Hamas