Aaj News

جمعہ, نومبر 22, 2024  
19 Jumada Al-Awwal 1446  

’تاج محل مغلوں نے تعمیر نہیں کیا‘، تاریخ درست کرانے کیلئے مقدمہ دائر

تاج محل اصل میں راجہ مان سنگھ کا محل تھا، جس کی بعد میں شاہ جہاں نے محض مرمت کرائی تھی، درخواست
شائع 05 نومبر 2023 06:52pm

بھارتی دارالحکومت نئی دہلی کی عدالتِ عالیہ (ہائی کورٹ) میں مفاد عامہ کی ایک درخواست دائر کی گئی ہے، جس میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ تاج محل مغلوں نے تعمیر نہیں کیا۔

سخت گیر ہندو تنظیم ’ہندو سینا‘ کے صدر سرجیت سنگھ یادو کی طرف سے دائر کی گئی درخواست میں استدعا کی گئی ہے کہ عدالت بھارتی حکومت کو ہدایت کرے کہ وہ تاج محل سے متعلق تاریخی حقائق کو درست کرکے دوبارہ تاریخی کتابیں شائع کرے۔

عدالت نے اس درخواست کو رد یا پھر سماعت کے لیے منظور کرنے کا فی الحال فیصلہ نہیں کیا ہے۔

درخواست میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ تاج محل اصل میں راجہ مان سنگھ کا محل تھا، جس کی بعد میں مغل شہنشاہ شاہ جہاں نے محض مرمت کرائی تھی اوریہ مغلوں کی تعمیر نہیں ہے۔

ہندو سینا نے اپنی درخواست میں کہا کہ عدالت مرکزی حکومت، محکمہ آثار قدیمہ اور ریاست اتر پردیش کی حکومت کو حکم دے کہ وہ تاج محل کی تعمیر سے متعلق غلط تاریخی حقائق کو تاریخ کی کتابوں سے ہٹا دیں اور اس کی جگہ صحیح حقائق پر مبنی نئی تاریخی کتابیں شائع کی جائیں۔

واضح رہے کہ دنیا کے سات عجائبات میں شامل مغلیہ دور کی شاندار عمارت تاج محل آگرہ میں واقع ہے، جو ریاست اُتر پردیش (یو پی) کا ایک اہم شہر ہے۔

درخواست گزار نے عدالت سے یہ بھی استدعا کی ہے کہ وہ بھارت کے محکمہ آثار قدیمہ کو حکم دے کہ وہ تاج محل کے دور اور راجہ مان سنگھ کے محل کے وجود کے بارے میں تفتیش کر کے اپنی رپورٹ پیش کرے۔

بھارتی میڈیا کے مطابق زیادہ امکان اس بات کا ہے کہ اس درخواست پر جمعے کے روز ہی سماعت ہو سکتی ہے، درخواست ہائی کورٹ کے چیف جسٹس ستیش چندر شرما اور جسٹس تشار راؤ گیڈیلا کی بنچ کے سامنے سماعت کے لیے پیش کی جائے گی۔

درخواست گزار کے دلائل کیا ہیں؟

مفاد کی اس درخواست سرجیت یادو نے دعویٰ کیا ہے کہ انہوں نے تاج محل کے بارے میں کافی گہرا مطالعہ اور تحقیق کی ہے۔

ان کا کہنا ہے کہ ’تاریخ کے حقائق کو درست کرنا اور لوگوں کو تاج محل کے بارے میں صحیح معلومات فراہم کرنا بہت ضروری ہے۔‘

سرجیت یادو کہتے ہیں کہ انہوں نے تاج محل پر کئی کتابوں کا جائزہ لیا اور ایک کتاب میں لکھا ہے کہ شاہ جہاں کی ایک اہلیہ عالیہ بیگم تھیں اور ممتاز محل کا کوئی ذکر نہیں ہے۔

انہوں نے اس حوالے سے ایک قدرے گم نام مصنف زیڈ اے ڈیسائی کی کتاب ”تاج میوزیم“ کا حوالہ دیا، جس کے مطابق ممتاز کی تدفین کے لیے ایک بلند اور خوبصورت جگہ کا انتخاب کیا گیا تھا، جو کہ راجہ مان سنگھ کی حویلی تھی اور تدفین کے وقت مان سنگھ کے پوتے راجہ جئے سنگھ کے قبضے میں تھی۔

درخواست گزار کا کہنا ہے کہ یہ حویلی کبھی گرائی نہیں گئی۔

ان کا دعویٰ ہے کہ تاج محل کا موجودہ ڈھانچہ ’ترمیم شدہ راجہ مان سنگھ کی حویلی کی تزئین و آرائش اور تجدید کاری کے سوا کچھ نہیں ہے جو پہلے سے ہی موجود تھی۔‘

تاریخ کو مسخ کرنے کی کوشش

محبت کی نشانی اور دنیا کے عجائبات میں شامل تاج محل کے حوالے سے تنازعات کوئی نئی بات نہیں، اس عمارت کو مغل بادشاہ شاہ جہاں نے اپنی بیگم ممتاز محل کی یاد میں سترہویں صدی میں آگرہ میں تعمیر کرایا تھا۔

لیکن دائیں بازو کی ہندو قوم پرست جماعتیں اور سخت گیر تنظیمیں مغلوں کی تعمیر کردہ دیگر کئی اہم تاریخی عمارتوں کی طرح تاج محل کے حوالے سے بھی اس کے ایک ہندو مندر ہونے کے دعوے کرتی رہی ہیں۔

ان کا دعویٰ ہے کہ دہلی کا لال قلعہ، جامع مسجد اور اس طرح کی دیگر تاریخی عمارتیں مغلوں کی تعمیر کردہ نہیں بلکہ ہندو راجاؤں کی دین ہیں۔

ایسی بیشتر عمارتوں کو یہ سخت گیر ہندو اپنا قدیم مندر بتاتے ہیں اور اس کے لیے ایک مہم بھی چلا رکھی ہے۔

ہندوتوا کے علمبردار اور خود کو مورخ قرار دینے والے مراٹھی برہمن پرشوتم ناگیش اوک (پی این اوک) نے سن 1965 میں ’’تاج محل تیجو مہالیہ ہے‘‘ کے نام سے ایک کتاب لکھ کر اس تنازعے کو ہوا دی تھی۔

پرشوتم ناگیش مسلمانوں کے مقدس ترین مقام خانہ کعبہ اور مسیحیوں کے مذہبی مقام ویٹیکن سٹی کو بھی ہندو مندر قرار دے چکے ہیں۔

انہوں نے تاج محل کو شیو مندر ثابت کرانے کے لیے عدالت سے بھی رجوع کیا تھا، تاہم سپریم کورٹ نے سن 2000 میں ان کی درخواست مسترد کر دی تھی۔

لیکن ان کے نظریے کی بنیاد پر تاج محل کے حوالے سے مختلف عدالتوں میں کیس دائر کرنے کا سلسلہ چلتا رہا ہے اور تازہ ترین معاملہ بھی اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے۔

حالانکہ اگست 2017ء میں بھارتی آثار قدیمہ نے اپنے ایک واضح بیان میں کہا تھا کہ تاج محل میں کسی مندر کے آثار اور اس کا کوئی بھی ثبوت نہیں ہے۔

Delhi High Court

Taj Mahal

Mughal Emperor Shah Jahan

Mumtaz Mahal

Hindu Sena

History of Taj Mahal