وفاقی و صوبائی حکومتیں یقینی بنائیں انتخابات 8 فروری کو بغیر کسی رکاوٹ مکمل ہوں، سپریم کورٹ
سپریم کورٹ نے انتخابات کیس کا تحریری حکم نامہ جاری کردیا، جس میں لکھا گیا ہے کہ وفاقی و صوبائی حکومتیں یقینی بنائیں کہ انتخابات 8 فروری کو بغیر کسی رکاوٹ مکمل ہوں۔ عدالت نے 90 دن میں انتخابات کیلئے دائر درخواستیں نمٹا دیں۔
چیف جسٹس قاضی فائز عیسی نےانتخابات کیس کا حکم نامہ تحریر کیا، حکم نامہ کے مطابق آگاہ کیا گیا کہ الیکشن کمیشن نے صدر کے خط کا کوئی جواب نہیں دیا، صدر اور الیکشن کمیشن سمیت سب کو وہی کرنا چاہیے جو آئین کی منشا ہے، کوئی ادارہ دوسرے کی آئینی حدود میں مداخلت کرے تو نتائج سنگین ہونگے، صدر اور الیکشن کمیشن کا تنازع غیر ضروری طور پر سپریم کورٹ لایا گیا۔
تحریری حکم نامہ کے مطابق عدالت نے صدر اور الیکشن کمیشن کے امور میں مداخلت نہیں کی، پورا ملک انتخابات کی تاریخ کیلئے تشویش میں مبتلا تھا۔ انتخابات کی مقررہ تاریخ 8 فروری پر تمام فریقین متفق ہیں، آئین اور قانون میں عدالت کا الیکشن کی تاریخ مقرر کرنے کا اختیار نہیں، صدر نے آرٹیکل 186 کے تحت عدالت سے رجوع نہیں کیا، صدر کے خط اور الیکشن کمیشن کے موقف سے عدالت مشکل میں آگئی، آئین پر عمل کرنا کوئی آپشن نہیں بلکہ ذمہ داری ہے، آج سے پندرہ سال پہلے تین نومبر کو آئین پر شب خون مارا گیا تھا۔
فیصلے میں کہا گیا کہ کچھ لوگوں کو خدشہ تھا شاید انتخابات ہونگے ہی نہیں، آئین کے تحت سپریم کورٹ ایسا اختیار استعمال نہیں کر سکتی جو اسے حاصل نہ ہو، عدالت نے صدر اور الیکشن کمیشن کو تاریخ کے تعین میں سہولت کاری کی، آئینی عہدہ جتنا بڑا ہوگا ذمہ داری بھی اتنی ہی زیادہ ہوگی، آئین پر عمل کرنا ہر شہری کا بنیادی فرض ہے۔
حکم نامہ کے مطابق آئین پاکستان کو پچاس سال ہوچکے ہیں، صدر، چیف الیکشن کمشنر اور ارکان آئین کے تحت کیے گئے حلف کے پابند ہیں، کسی آئینی ادارے یا عہدیدار کے پاس آئین سے آشنا نہ ہونے کا کوئی عذر نہیں، آئین پر شب خون مارنے کے ہمیشہ دور رس اثرات مرتب ہوئے ہیں، تاریخ سے سیکھنا ہوگا کہ اس کے عوام اور ملکی جغرافیائی حدود پر منفی اثرات پڑے۔
سپریم کورٹ کے تحریری فیصلے میں کہا گیا ہے کہ وقت آگیا ہے کہ عدالتیں غیر ضروری طور پر ایسے تنازعات کا حصہ نہ بنیں کہ ان پر وقت ضائع کریں، ماضی قریب میں انہی صدر مملکت نے اسمبلی اس وقت تحلیل کی جب وزیراعظم عدم اعتماد کا سامنا کر رہے تھے، آئین واضح ہے کہ عدم اعتماد کی صورت میں اسمبلی تحلیل نہیں ہوسکتی، اسمبلی تحلیل سے تنازع سپریم کورٹ آیا اور عدالت کو اس کا فیصلہ کرنا پڑا۔
عدالتی حکم کے مطابق جسٹس مظہر عالم نے قرار دیا کہ غیر آئینی اقدامات پر آٹیکل 6 بھی لگ سکتا ہے، جسٹس مظہر عالم نے آرٹیکل چھ کے اطلاق کا معاملہ پارلیمنٹ پر چھوڑا تھا، ہر آئینی ادارہ آئین پر عملدرآمد کرنے کا پابند ہے، عوام کا حق ہے کہ انتخابات ہوں اور عدالت کو الیکشن یقینی بنانے کا اعزاز حاصل ہوا۔
فیصلے میں کہا گیا کہ ایڈووکیٹ جنرلز کے مطابق کسی صوبائی حکومت کو انتخابات کی تاریخ پر اعتراض نہیں، سپریم کورٹ میڈیا آرٹیکل 19 کے تحت میڈیا کے رول کا اعتراف کرتی ہے، غلط معلومات دینا جھوٹا بیانیہ بنانا جمہوریت کو نیچا دکھانا ہے، بعض اس آزادی کو عوام کو غلط معلومات دینا اور جھوٹا بیانیہ بنانے کا لائسنس سمجھتے ہیں، غلط معلومات دینا جھوٹا بیانیہ بنانا جمہوریت کو نیچا دکھانا ہے، پیمرا کا قانون ایسے مندرجات سے روکتا ہے اور جمہوریت کے فروغ کیلئے فیئر اظہار کی اجازت دیتا ہے، سپریم کورٹ میڈیا میں ان صحافیوں کو سراہتی ہے جو دیانتداری سے اپنی پیشہ وارانہ ذمہ داری پوری کرتے ہیں، عدالت نے 90 دن میں انتخابات کیلئے دائر درخواستیں نمٹا دیں۔
Comments are closed on this story.