Aaj News

جمعہ, نومبر 22, 2024  
19 Jumada Al-Awwal 1446  

غزہ جنگ کا ذمہ دار امریکا ہے، اسرائیل مذاکرات سے قیدی واپس لے سکتا ہے، سربراہ حزب اللہ

عرب، مسلم ممالک کو غزہ میں جنگ روکنے کے لیے مل کر کام کرنا چاہیے، سید حسن نصراللہ
اپ ڈیٹ 03 نومبر 2023 08:08pm
حزب اللہ کے سربراہ  سید حسن نصراللہ ، فلسطینی گروپ حماس اور اسرائیل کے درمیان جنگ کے بعد پہلا عوامی خطاب کررہے ہیں۔ فوٹو ــ اسکرین گریب / الجزیرہ ٹی وی
حزب اللہ کے سربراہ سید حسن نصراللہ ، فلسطینی گروپ حماس اور اسرائیل کے درمیان جنگ کے بعد پہلا عوامی خطاب کررہے ہیں۔ فوٹو ــ اسکرین گریب / الجزیرہ ٹی وی

حزب اللہ کے سربراہ سید حسن نصراللہ نے فلسطینی گروپ حماس اور اسرائیل کے درمیان جنگ کے بعد پہلے عوامی خطاب میں ہے کہ ہم نہ جھکیں گے اور نہ کسی کے دباؤ میں آئیں گے، حزب اللہ 8 اکتوبر کو جنوبی اسرائیل میں حماس کے اچانک حملے کے ایک دن بعد جنگ میں داخل ہوئی تھی۔ غزہ میں جاری جنگ کا ذمہ دار امریکا ہے، اسرائیل مذاکرات کرکے اپنے قیدی واپس لے سکتا ہے۔ عرب، مسلم ممالک کو غزہ میں جنگ روکنے کے لیے مل کر کام کرنا چاہیے۔

حزب اللہ کے سربراہ حسن نصراللہ نے اپنے خطاب میں کہا کہ غزہ کے شہدا کو سلام پیش کرتا ہوں، اسرائیل کے حملوں میں ہزاروں شہری شہید ہوئے ہیں۔

انھوں نے کہا کہ مسجد اقصیٰ کیلئے جاری جنگ کا دائرہ طویل ہوگیا ہے، مسجد اقصیٰ کیلئے جنگ میں مزید محاذ کھول دیئے ہیں۔

سربراہ حزب اللہ کا کہنا ہے کہ ہم نہ جھکیں گے اور نہ کسی کے دباؤ میں آئیں گے، ہمیں شہدا کےاہل خانہ کےعزم اور ہمت پر فخر ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ شہادت ہماری طاقت ہے جس پر ہمیں فخر ہے، اس بات پر بھی فخر ہے کہ عراقی اور یمنی براہ راست جنگ میں شامل ہوچکے۔

فلسطین کے چھپے ہوئے دشمن سامنے آگئے

حسن نصر اللہ نے مزید کہا کہ دنیا بھر میں اسرائیل کی مذمت کی جارہی ہے، حماس کا حملہ فلسطین کے چھپے ہوئے دشمنوں کو سامنے لے آیا ہے۔

انھوں نے کہا کہ ہزاروں کی تعداد میں فلسطینی اسرائیل کی قید میں ہیں، طوفان الاقصیٰ آپریشن صرف فلسطین اور فلسطینیوں کیلئے تھا، اس آپریشن نے بہت سی چیزوں کو بےنقاب کر دیا ہے، دنیا نے اسرائیلی مظالم پر مجرمانہ طور پر آنکھیں بند کرلی ہیں، امریکا اسرائیل کی پوری طرح سے مدد کر رہا ہے، اسرائیل کےخلاف جنگ حق کی جنگ ہے۔

اسرائیل ”کمزور“ قرار

سربراہ حزب اللہ کا کہنا تھا کہ غزہ میں جو کچھ ہو رہا ہے وہ اسرائیل کی حماقت اور نااہلی کا عکاس ہے، کیونکہ وہ بچوں اور خواتین کو قتل کر رہا ہے۔

حزب اللہ کے رہنما نے اسرائیل کو ”کمزور“ قرار دیتے ہوئے کہا کہ پورے ایک مہینے تک وہ ایک بھی کامیابی حاصل نہیں کرسکا، اسرائیل مذاکرات کے ذریعے غزہ میں قید اپنے لوگوں کو واپس لا سکتا ہے۔

غزہ جنگ، دو مقاصد

حزب اللہ کے سربراہ نے کہا کہ غزہ میں جو کچھ ہو رہا ہے وہ ایک فیصلہ کن جنگ ہے یہ پچھلی جنگوں کی طرح نہیں ہے۔ اس کے لیے ہر ایک کو ذمہ داری قبول کرنے کی ضرورت ہے۔

حسن نصراللہ نے دو مقاصد کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ پہلا غزہ میں جنگ کو روکنا اور دوسرا حماس کو اس جنگ میں فتح حاصل کرنا ہے۔

انھوں نے مزید کہا کہ حزب اللہ اپنی کارروائیوں میں روز بروز اضافہ کر رہی ہے اور اسرائیل کو مجبور کر رہی ہے کہ وہ غزہ یا مقبوضہ مغربی کنارے کے بجائے لبنان کی سرحد کے قریب اپنی افواج رکھے۔

حزب اللہ 8 اکتوبر کو جنگ میں داخل ہوئی

اپنے خطاب میں حسن نصراللہ کا کہنا تھا کہ حزب اللہ 8 اکتوبر کو جنوبی اسرائیل میں حماس کے اچانک حملے کے ایک دن بعد جنگ میں داخل ہوئی تھی۔

ان کا کہنا ہے کہ لبنان کی سرحد پر اسرائیلی افواج کے ساتھ روزانہ فائرنگ کا تبادلہ معمولی لگ سکتا ہے لیکن یہ بہت اہم ہے اور اسے 1948 کے بعد سے بے مثال قرار دیا ہے۔

نصراللہ نے اس بات کی بھی تصدیق کی کہ اب تک حزب اللہ کے 57 جنگجو شہید ہوچکے ہیں۔

انھوں نے کہا کہ لبنانی محاذ پر مزید کشیدگی کا حقیقی امکان ہے، اس طرح کی پیش رفت کا انحصار غزہ میں اسرائیلی کارروائیوں پر ہے، لبنانی محاذ پر تمام آپشنز کھلے ہیں، حزب اللہ تمام امکانات کے لیے تیار ہے۔

خطے میں امریکی جنگی جہازوں کی تعیناتی سے متعلق بات کرتے ہوئے نصراللہ نے کہا کہ حزب اللہ خوفزدہ نہیں ہے، جو کوئی بھی علاقائی جنگ کو روکنا چاہتا ہے اسے غزہ کی پٹی پر جنگ فوری طور پر بند کرنی چاہیے۔

حزب اللہ کے اسرائیلی فوج پر یکے بعد دیگرے 19 حملے

دوسری طرف لبنان اسرائیل سرحد پر شدید لڑائی جاری ہے۔ تقریر کے موقع پر حزب اللہ نے تین ہفتوں سے زائد عرصے کی لڑائی میں اب تک کا سب سے بڑا حملہ کرتے ہوئے کہا کہ اس نے اسرائیلی فوج کے ٹھکانوں پر بیک وقت 19 حملے کیے اور پہلی بار دھماکہ خیز ڈرونز کا استعمال کیا۔

خبررساں ادارے روئٹرز کے مطابق ایرانی حمایت یافتہ لبنان کی ایک طاقتور فوجی قوت حزب اللہ سرحد پر اسرائیلی افواج سے رابطے میں ہے، جہاں 2006 میں اسرائیل کے ساتھ جنگ لڑنے کے بعد سے اب تک اس کے 55 جنگجو ہلاک ہو چکے ہیں۔

واضح رہے کہ حزب اللہ کے سربراہ حسن نصراللہ جنگ کے آغاز کے بعد اپنی پہلی عوامی تقریر کرنے والے ہیں جبکہ امریکی وزیر خارجہ انٹونی بلنکن حالیہ ہفتوں میں ان کا تیسرا دورہ اسرائیل ہے۔

الجزیرہ نے اپنی رپورٹ میں کہا ہے کہ 7 اکتوبر سے اب تک غزہ پر اسرائیلی حملوں میں کم از کم 9,227 فلسطینی شہید ہو چکے ہیں۔ اسرائیل میں 1400 سے زائد افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔

Palestinian Israeli Conflict

Hamas Israel attack 2023

Gaza War