خواتین کی ہڑتال میں آئس لینڈ کی وزیراعظم بھی شامل
آئس لینڈ میں خواتین کی جانب سے تنخواہوں میں عدم مساوات کے سبب اب تک کا سب سے بڑا احتجاج اور ہڑتال جاری ہے، آئس لینڈ کی وزیراعظم کیٹرین جیکبس ڈوٹیر بھی اس ہڑتال کا حصہ ہیں۔
خاتون وزیراعظم کے مطابق وہ 2030 تک آئس لینڈ میں مکمل صنفی مساوات حاصل کرنا چاہتی ہیں۔ تقریباً ایک لاکھ خواتین کی جانب سے یہ احتجاج کیا جارہا ہے جو ملک میں اب تک کا سب سے بڑا احتجاج ہے۔
گزشتہ روز ریکجاویک کے مرکز میں اس احتجاج سے قبل اپنے دفتر کے باہر خطاب کرتے ہوئے کہا کہ کیٹرین جیکبس ڈوٹیر نے کہا کہ دنیا صنفی مساوات پر اپنے قدم کھینچ رہی ہے۔ لیکن آئس لینڈ صنفی تنخواہوں کے فرق، صنفی بنیاد پر تشدد اور جنسی ہراسانی سے متعلق جیسے ’بڑے مسائل‘ سے نمٹنے کے لیے اپنی پوری کوشش کر رہا ہے۔
انہوں نے برطانوی اخبار گارڈین سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ ’میرا خواب ہے کہ ہم 2030 سے پہلے مکمل صنفی مساوات حاصل کریں، لیکن میں جانتی ہوں کہ اس کے لیے بہت کوششیں درکار ہوں گی‘۔
مزید پڑھیں:
رہائی پانے والی معمر اسرائیلی خاتون نے حماس کے جنگجو سے مصافحہ کیوں کیا؟
چارلی چارلی چیلنج: کیا آپ بھوت بلانے کا یہ خطرناک عمل پورا کر پائیں گے؟
ورلڈ کپ: پاکستان کے فائنل 4 میں جگہ بنانے کے کیا امکانات ہیں
انہوں نے کہا کہ جب ان دونوں معاملات کی بات آتی ہے تو ہم قانون سازی میں تبدیلیاں کرتے رہے ہیں اور امید کرتے ہیں کہ آگے بڑھتے رہیں گے۔
جیکبسڈوٹیر نے مزید کہا کہ ’یہ قابلِ قبول نہیں ہے کہ دنیا بھر میں خواتین کو 300 سال تک مکمل مساوات کے لیے انتظار کرنا پڑے گا‘، کیونکہ اقوامِ متحدہ کے ایک اندازے کے مطابق خواتین کو اس ہدف کو حاصل کرنے میں 300 سال لگیں گے۔
48 سال بعد اس ہڑتال میں ایک لاکھ افراد نے شرکت کی جو ملک کی 3 لاکھ 76 ہزار آبادی کے ایک چوتھائی حصے سے بھی زیادہ ہیں۔
اس ہڑتال سے ملک بھر میں بڑے پیمانے پر خلل پڑا ہے، ملک بھر میں اسکول اور کنڈر گارڈن بند ہیں اور صرف ایک بینک کھولا گیا ہے۔
اس سے قبل 1975 میں خواتین کی پہلی ہڑتال ریکجاویک شہر کے مرکز میں واقع ایک پہاڑی ارنارہول پر منعقد ہوئی تھی۔
خواتین کی جانب سے اس پہلی ہڑتال کے نتیجے میں آئس لینڈ میں اہم تبدیلیاں آئیں جن میں خواتین کی سیاسی جماعت، ویمن الائنس کا قیام اور ملک کی پہلی خاتون منتخب صدر کا انتخاب شامل ہے۔
لیکن جیکبسڈوٹیر نے کہا کہ اگرچہ دنیا آئس لینڈ کو صنفی مساوات کے لئے عالمی رہنما کے طور پر دیکھتی ہے ، لیکن آئس لینڈ کی خواتین اس حقیقت کے بارے میں بہت باشعور ہیں کہ ان کو اب بھی صنفی تنخواہوں کے فرق، صنف کی بنیاد پر تشدد، جنسی تشدد اور ہراسانی سے نمٹنے جیسے بڑے مسائل درپیش ہیں۔
انہوں نے مزید کہا کہ ان کی حکومت ان مسائل سے نمٹنے کے لئے مزید اصلاحات لانے کے لئے پرعزم ہے۔ وزیر اعظم نے کہا کہ ہمارا تجربہ یہ ہے کہ صنفی مساوات نہ صرف صحیح کام ہے، بلکہ یہ معیشت اور معاشرے کے لئے بھی اچھا ہے۔
Comments are closed on this story.