پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کیس: ’اس ملک کو چلنے دیں، اتنا تو کہیں قانون ٹھیک بنا ہے‘
سپریم کورٹ نے فل کورٹ بینچ نے پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کے خلاف درخواستوں پر فیصلہ محفوظ کرلیا ہے جو کچھ دیر بعد سنایا جائے گا، چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ اگر اتفاق رائے ہوگیا تو فیصلہ سنا دیں گے، اگر نہ ہوا تو فیصلہ محفوظ ہونے کا بتا دیں گے۔
سپریم کورٹ میں پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ پر سماعت شروع ہوئی تو اٹارنی جنرل نے دلائل کا آغاز کیا۔ کیس پر سماعت چیف جسٹس قاضی فائزعیسی کی سربراہی میں فل کورٹ کررہا ہے۔
گزشتہ روزایم کیو ایم کے وکیل فیصل صدیقی اور وائس چیئرمین پاکستان بار نے ایکٹ کے حق میں دلائل مکمل کیے تھے۔
اٹارنی جنرل پاکستان منصور عثمان کے دلائل
اٹارنی جنرل پاکستان نے دلائل کا آغاز کرتے ہوئے کہا کہ تحریری جواب کی بنیاد پر دلائل دوں گا، میں آرٹیکل 191 اور عدلیہ کی آزادی کی بات کروں گا، 3 سوالات اٹھائے گئے تھے جن کا جواب دوں گا۔
اٹارنی جنرل کا کہنا تھا کہ آئین میں کئی جگہوں پر سبجیکٹ ٹو لا کی اصطلاح آئی، پرائیویسی کا حق بھی سبجیکٹ ٹو لا رکھا گیا، لیکن یہ کس نوعیت کا قانون ہو گایہ نہیں بتایا گیا، رائٹ ٹو پرائیویسی کو قانون کے ذریعے ریگولیٹ کیا گیا ہے۔
اٹارنی جنرل نے مؤقف اختیار کیا کہ آرٹیکل191سے پارلیمنٹ کو قانون سازی کا اختیار ملتا ہے، کوئی آرٹیکل پارلیمان سے قانون سازی کا اختیار واپس نہیں لیتا۔
چیف جسٹس نے اٹارنی جنرل سے استفسار کیا کہ آپ کہہ رہے ہیں آرٹیکل 19 اے میں جو اصصلاح استعمال ہوئی وہ الگ ہے۔ جس پر اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ رائٹ ٹو انفارمیشن ایکٹ 19 اے سے اخذ حق قانون سازی سے ہی بنا، اور جب سے آئین بنا ہے آرٹیکل191میں کوئی ترمیم نہیں ہوئی۔
اٹارنی جنرل نے مؤقف اختیار کیا کہ آرٹیکل 191 میں ترمیم نہ ہونا عدلیہ کی آزادی کو یقینی بنانا ہے، آرٹیکل 191 پارلیمنٹ کا حق قانون سازی ختم نہیں کرتا، پارلیمنٹ نےعدلیہ کی آزادی دی مگر اپنا حق قانون سازی ختم نہیں کیا۔
جسٹس منیب اختر نے ریمارکس دیے کہ 1973 سے پہلے رولز بنانے کا اختیار گورنر جنرل یا صدرکی اجازت سے مشروط تھا۔ جس پر اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ آرٹیکل 191 قانون سازی کا اختیار دیتا ہے پابندی نہیں لگاتا۔
جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیے کہ آئین میں لفظ لا 200 سے زیادہ بار آیا ہے، آپ کہہ رہے ہیں جہاں یہ لفظ لکھا وہ ایک تناظرمیں دیکھا جائے گا، یہ ”ون سائز فٹ آل“ والا معاملہ نہیں ہے، یہاں بھی یہ لفظ لکھا ہے اس کی نوعیت الگ ہے۔
جسٹس منیب اختر نے کہا کہ جسٹس اعجازنے ٹھیک کہا یہاں ون سائز فٹ ٹو آل نہیں چل سکتا۔
جسٹس محمد علی مظہر نے ریمارکس دیے کہ آرٹیکل191میں پھر سبجیکٹ ٹو کانسٹیٹوشن اینڈ لا کیوں ہے، یہ صرف سبجیکٹ ٹو کانسٹیٹیوشن کیوں نہیں رکھا گیا۔
جسٹس اطہر من اللہ نے اٹارنی جنرل کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ اٹارنی جنرل صاحب آرٹیکل191میں صرف لا کا لفظ نہیں، یہ سبجیکٹ ٹو لا لکھا ہے۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ سبجیکٹ ٹو لا میں ججمنٹ لا بھی آسکتا ہے، ان الفاظ کو ان کے تناظر کے ساتھ دیکھنا ہوگا، ہو سکتا ہے پارلیمنٹ نے خود ان الفاظ کو مزید قانون سازی کیلئے رکھا ہو۔
جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیے کہ آرٹیکل 175 میں واضح ہے کہ ہائی کورٹ میں ججز کی تعداد قانون میں مقرر ہوگی، آرٹیکل 191 میں کہیں نہیں لکھا کہ قانون بنے گا اور اسکے تحت رولز بنیں گے۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ یہ کیوں نہیں کہتے کہ آئین سازوں نے پارلیمنٹ یا لاء کا لفظ دانستہ طور پر استعمال کیا ہے، پارلیمان نے آئین کو جاندار کتاب کے طور پر بنایا ہے کہ جو وقت پڑنے پر استعمال ہو سکے۔
جسٹس اعجازالاحسن نے ریمارکس دیے کہ آرٹیکل191 میں بھی پارلیمنٹ کی یہ نیت ہوتی تو ایسا کہتی، پارلیمنٹ کہہ سکتی تھی جب تک قانون نہیں بن جاتا رولز بنالیں، آرٹیکل 191 میں ایسا کچھ نہیں کہا گیا۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ آپ نے جس بنیاد پر دلائل دیئے وہی دیتے تو یہ مسائل نہ ہوتے، کئی بار سیدھا ہاں یا نہ میں جواب دینا آسان نہیں ہوتا۔
جسٹس اعجازالاحسن نے اٹارنی جنرل سے استفسار کیا کہ آپ کہہ رہے ہیں رولز میں پارلیمنٹ کے ترمیم کرنے پر پابندی نہیں۔ جس پر اٹارنی جنرل نے مؤقف پیش کیا کہ قانون دینے والا ادارہ پارلیمنٹ ہے، آرٹیکل 191 میں پارلیمنٹ پر ترامیم کی کوئی پابندی نہیں۔
جسٹس مظاہر نقوی نے استفسار کیا کہ آرٹیکل 191 کا مقصد کیا تھا پھر۔ جس پر اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ زیرالتواکیسزکی تعداد 70 ہزارتک پہنچ گئی توشایدایک اورقانون کی ضرورت پڑے، انہوں نے پانچ سال بعد عوام میں جانا ہوتا ہے۔
جسٹس مظاہر نے سوال کیا کہ پارلیمنٹ میں کتنےلوگوں نے پریکٹس اینڈپروسیجرایکٹ پربحث کی۔ جس پراٹارنی جنرل نے بتایا کہ وہ ویب سائٹ پر موجود ہے۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ ایک ادارے کو دوسرے کی عزت کرنی چاہیے، میرا خیال ہے پارلیمنٹ نے سپریم کورٹ کی عزت کی، پارلیمنٹ چاہتی تو ایک قدم اور اٹھا سکتی تھی جو نہیں اٹھایا، میراخیال ہے وہ قدم اس لئے نہیں اٹھایا گیا کہ پارلیمنٹ نے ہم پر اعتماد کیا، اب ہم دیکھیں شاید اس قانون کے تحت مزید رولز بنانے پڑیں۔
اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ سپریم کورٹ رولز بننے کے بعد راستہ روکا نہیں جاسکتا، کئی کئی ماہ تک مقدمات سماعت کیلئے مقرر نہیں ہوتے تھے، قانون سازی کا مقصد صرف ماسٹر آف روسٹرز نہیں تھا۔
چیف جسٹس نے اٹارنی جنرل سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ پارلیمنٹ کو ہمارے اوپر اعتماد تھا کہ ہم کریں گے، پارلیمنٹ ہماری دشمن نہیں ہے نہ ہم پارلیمنٹ کے دشمن ہیں، پارلیمان بھی ہمیں دشمن نہیں سمجھتی، ہم مل کے چل سکتے ہیں، ایک بار ہمیں ایک دوسرے کو کہہ لینے دیں آپ نے ٹھیک کیا ہے، اداروں کو لڑانے کی کوشش نہ کریں، آپ آئین پر فوکس رکھیں۔
چیف جسٹس قاضی فائز عیسی نے ریمارکس دیئے کہ ہمیں اس معاملے کا سکوپ بڑھانا نہیں چاہئے، دنیا آگے جا رہی ہے ہم پیچھے، ماحولیاتی تبدیلیوں سمیت بہت سے مسائل ہیں، 40 سال سے قانون سے وابستگی ہے، کچھ غیر آئینی ہوا تو دیکھ لیں گے۔
اٹارنی جنرل نے کہا کہ آئین چیف جسٹس کو ماسٹر آف روسٹر تسلیم نہیں کرتا۔ جس پر چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ ماسٹر آف روسٹر کی اصلاح پہلی بار آئی کہاں سے، انگلستان سے ہم سیکھتے ہیں کیا وہاں استعمال ہوتا ہے۔
جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ اسکول کے زمانے میں ماسٹر کا سنا تھا۔ جس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ ماسٹر تو ایک ہی ہے اوپر والا، نو آبادیاتی نظام سے ہی ماسٹر کی اصلاح لینی ہے، ہم تو 14 سو سال پہلے کی طرف دیکھتے ہیں۔
جسٹس منیب اختر نے ریمارکس دیے کہ یہ اصطلاح پسند آئے یا نہ آئے میں اسے شارٹ ہینڈ استعمال کرتا ہوں، ایکٹ کے مطابق بھی ماسٹر آف روسٹر تو 3 ججزکی کمیٹی ہی ہے ناں؟ 3 ججوں کو اختیار دیا گیا اس کو فل کورٹ کر دیں ناں۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ ہمارے سامنے یہ سوال ہے کہ پریکٹس اینڈ پروسیجر آئینی ہے یا نہیں، اگر ایکٹ غیر آئینی ہوا تو برقرار نہیں رہے گا، تلوار کے نیچے گردن ہو تو بھی لوگوں نے کلمہ پڑھا، پڑھ لیا تو بات ختم، کسی کی نیت پر کیوں بات کریں، پارلیمان کو عزت دیں تاکہ وہ ہمارے فیصلوں پر عمل کریں، قانون اچھا یا برا ہونے پر بحث ہوسکتی ہے۔
جسٹس اعجازالاحسن نے سوال اٹھایا کہ میرا ایک سوال قانون آئینی ہونے اور دوسرا پارلیمان کے اختیار کا تھا، پریکٹس اینڈپروسیجر ایکٹ کی شقیں کیسے آئین سے متصادم نہیں۔ جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ شقوں کو غیر آئینی ثابت کرنے کا بوجھ درخواست گزاروں پر ہے۔
جسٹس منصور علی شاہ نے ریمارکس دیے کہ پارلیمنٹ سپریم کورٹ کے اختیارات کو بڑھا سکتا ہے کم یا ختم نہیں کرسکتا۔ جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ پارلیمان اپنا دائرہ اختیار نہیں بڑھا سکتی توعدالت کیسے بڑھا سکتی ہے، لگتا ہے میں نے جو سوال کیا وہ آپ کو بالکل پسند نہیں آیا۔
چیف جسٹس نے کہا کہ ہم ایک دوسرے ادارے کے اختیار پر مین میخ نکال رہے ہیں، یہاں اس سپریم کورٹ نے ایسا کیا جو اس کا اختیار تھا ہی نہیں، ایک بینچ نے فیصلہ کیا دوسرے نے اس پر اپنا فیصلہ دے دیا، وہ تو نظر ثانی کا دائرہ اختیار بھی نہیں تھا، آپ شاید اس طرف نہیں جانا چاہتے، آپ نے روز سپریم کورٹ آناہے، انگلی اٹھانی ہے تو پہلے اپنے پر اٹھائیں نا۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ کسی درخواستگزار میں ہمت نہیں ہوئی کہ اس معاملے پر بات کرتا، آپ ہمارے محافظ بنتے ہیں تو پھر آئین کے محافظ بنیں نا، بہت ہو گیا یہ کھلواڑ کہ پارلیمنٹ یہ نہیں کر سکتی، جسٹس کارنیلئس اپنے فیصلوں میں اسلام کی بات کرتے تھے، ہم کہتے ہیں نہیں ہم نے ملکہ کی طرف ہی جانا ہے، اٹارنی جنرل آپ پاکستان کے اٹارنی جنرل ہیں، حکومت اور پارلیمان میں فرق ہوتا ہے۔
چیف جسٹس نے کہا کہ یہاں بینچ ادھر ادھر کر کے فیصلے کئے جاتے رہے وہ ٹھیک ہے، جب کہ جج کو روکا بھی جاتا رہا کہ آپ فلاں کیس نہیں سن سکتے، عابد زبیری کے لئے بھی سوال چھوڑ رہا ہوں وہ اس پر بات کریں نا۔
چیف جسٹس نے کہا کہ میں خاموشی سے بیٹھا سن رہا تھا، اتنا نہ مجبور کریں کہ بولنا پڑے اب بول دیا ہے، کیا سپریم کورٹ میں بینچ ادھر ادھر کر کے فیصلے بدلنا ٹھیک تھا، میں سوال چھوڑ رہا ہوں اس کو ایڈریس کرنا ہے یا نہیں آپ کی مرضی۔
عدالت نے پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کیس کی سماعت میں وقفہ کردیا۔ وقفے کے بعد سماعت دوبارہ شروع ہوئی تو اٹارنی جنرل نے کہا کہ اسٹیل ملز کے معاملے سوموٹو 2004میں لیا گیا ، 30 جون2022 تک اسٹیل ملز کا خسارہ 206 ارب سے تجاوز کر گیا۔
جسٹس مظاہرعلی اکبر نقوی نے اٹارنی جنرل سے کہا کہ اس بات کا اس کیس سے کیا تعلق۔ جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ ہم یہاں سچ سننا کیوں نہیں چاہتے۔ جسٹس مظاہر علی اکبر نے کہا کہ سپریم کورٹ کیخلاف چارج شیٹ نہیں لگ سکتی۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ قانون سازی پر چارج شیٹ کا لفظ استعمال ہونا نہیں چاہئے۔ جس پر جسٹس منیب اختر نے کہا کہ ہمیں صرف پارلیمنٹ کے قانونی اختیار پر دلائل دیں۔
چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ جج سے زیادہ عرصہ وکیل رہا ہوں، ججز کو اچھا لگے یابر اوکیل اپنے مطابق دلائل جاری رکھتا ہے۔
جسٹس یحیی آفریدی نے اٹارنی جنرل سے کہا کہ آپ دلائل جاری رکھیں،جوابات آخر میں دے دیجئے گا۔ جسٹس عائشہ ملک نے استفسار کیا کہ کیا قانون سازی کے وقت پارلیمان میں یہ بحث ہوئی تھی؟ ابھی تک پارلیمان میں بحث کا ریکارڈ فراہم نہیں کیا۔
اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ پارلیمنٹ سپریم کورٹ کے اختیارات کوبڑھاسکتی ہے کم نہیں کرسکتی۔ جس پر جسٹس یحیی آفریدی نے سوال اٹھایا کہ کیا ایک بار اختیار کو بڑھا دیا جائے تو ایکٹ کو ختم نہیں کیا جاسکتا۔ جس پر اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ آرٹیکل 184 یا آرٹیکل 185 کے دائرے کو پارلیمنٹ بڑھا سکتا ہے۔
جسٹس محمد علی مظہر نے استفسار کیا کہ کیا سپریم کورٹ کے اختیار کو بڑھانے کی کوئی حدود ہیں یا نہیں۔ جس پر اٹارنی جنرل نے کہا کہ آرٹیکل212عدالتوں سے متعلق قانون سازی کیلئے پارلیمنٹ کی حد مقرر کرتا ہے۔
جسٹس محمد علی مظہر نے سوال کیا کہ ایکٹ کا اطلاق قانون بننے کے دن سے ہو گا یا ماضی سے۔ جس پر اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ قانون کے مطابق اس کے اطلاق کی کوئی حد نہیں ہے۔
جسٹس مسرت ہلالی نے استفسار کیا کہ جن مقدمات میں نظرثانی پرفیصلہ ہوچکا کیا ان میں اپیل ممکن نہیں ہوگی۔ چیف جسٹس نے سوال کیا کہ اگر کوئی نظرثانی اور اپیل ایک ساتھ دائر کرے تو کیا ہوگا۔
اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ نظرثانی خارج ہونے کے بعد اپیل دائر ہو تو عدالت کیس کا جائزہ لے گی۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ بھٹو کیس کی مثال دینا چاہوں گا، نظرثانی میں اختلافی رائے دینے والوں نے بھی فیصلے کی حمایت کی، اگر اپیل کا حق ہوتا تو شاید نتیجہ کچھ اور ہوتا، نظرثانی خارج ہونے سے اپیل کا حق ختم نہیں ہوتا۔
جسٹس مظاہر نقوی نے کہا کہ بھٹوکیس سپریم کورٹ نے اپیل میں سنا تھا 184/3میں نہیں۔ جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ جسٹس مظاہر نقوی کی بات سے اتفاق کرتا ہوں، میرا خیال ہے ان مقدمات کا حوالہ نہ دیں جو دوبارہ سامنے آ سکتے ہیں۔
جسٹس شاہد وحید نے سوال اٹھایا کہ اس پرکیا کہیں گے کہ اپیل کے حق کیلئے آئینی ترمیم ضروری تھی۔ اٹارنی جنرل نے کہا کہ سپریم کورٹ کے اختیارات آئین میں واضح ہیں، سپریم کورٹ کا دائرہ اختیار بڑھانے پر کوئی پابندی نہیں ہے، فی الحال تو پہلی اپیل کا حق دیا گیا ہے۔
جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ بات اپیل کے نمبر کی نہیں اصول کی ہے۔ جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ آئین کے آرٹیکل 185 میں ایک ہی اپیل کا ذکر ہے۔
جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ میرا سوال بہت سادہ ہے جس کا جواب نہیں ملا۔ جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ اٹارنی جنرل اگر آپ آرٹیکل 185 ٹو پڑھ لیں تو شاید جواب مل جائے۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ شریعت کورٹ بنی تودیگرعدالتوں سےاختیارات واپس لیے گئے، اعلی عدلیہ کے کچھ اختیارات لیکر شریعت کورٹ کو دیے گئے، اسلام میں مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر کا کوئی تصور نہیں ہے، سپریم کورٹ سے کوئی اختیار چھینا نہیں جا رہا بلکہ دیا جا رہا ہے، آمر نے اختیار واپس لیا تو سب خاموش ہوگئے۔
سپریم کورٹ میں پریکٹس اینڈ پروسیجر بل کیس کی سماعت کے دوران جسٹس سردار طارق مسعود نے کہا کہ ایک چیف جسٹس بینچ بناکرغیرآئینی اقدام کی توثیق کرتا ہے، اس پر آپ کو اعتراض نہیں، قرآن پاک بھی مشاورت کی بات کرتا ہے۔
جسٹس طارق مسعود نے کہا کہ آپ کہتے ہیں ڈکٹیٹر شپ ٹھیک ہے، کیا ہم غلام ہیں، یہ ہمارا مستقبل ہے، ڈکٹیٹر شپ کو فروغ نہ دیں۔
ان کا کہنا تھا کہ ہم قانون پر فیصلہ کرلیں گے، چار آمر آئے، آخری مرتبہ مشرف آئے، اس ملک کو چلنے دیں، اتنا تو کہیں قانون ٹھیک بنا ہے۔
جسٹس مسرت ہلالی نے ریمارکس دیئے کہ چیف صاحب کا سوال ہوگیا ہے تو میرا سوال بھی لے لیں، آرٹیکل191 کے تحت قانون سازی پارلیمان ہی کرسکتی ہے، قانون میں وقت کیساتھ تبدیلی آتی رہتی ہے، کیا قانون سازی کیلئے دو تہائی اکثریت کی شرط ختم نہیں ہوگئی؟ شاید آپ کے دلائل میں نے دے دیے ہیں۔
جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ سادہ قانون سازی کےذریعے شریعت کورٹ کا اختیار کم کیا گیا، سپریم کورٹ کا اختیار قانون سازی سے کم نہیں ہوسکتا۔
حسن عرفان نے کہا کہ آرٹیکل175 کے تحت سپریم کورٹ کے حوالے سے قانون سازی ممکن نہیں، عوام پارلیمان اور حکومت کی نیت ایک جیسی ممکن نہیں۔
چیف جسٹس نے کہا کہ آئین کے مطابق عوام کی نمائندگی منتخب نمائندے کرینگے۔ جس پر حسن عرفان نے کہا کہ دو تہائی اکثریت سے ہی آئین میں ترمیم ممکن ہے، کہیں نہیں لکھاکہ کمیٹی کتنےعرصے میں مقدمات مقررکرےگی۔
وکیل عابد زبیری نے کہا کہ شرعی عدالت سے متعلق اٹارنی جنرل کے دلائل کا جواب دینا چاہتا ہوں، امریکی سپریم کورٹ کا فیصلہ ماضی میں ہماری عدالتیں مانتی رہی ہیں۔
سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کیس کی سماعت مکمل ہونے پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ ہم ججز آپس میں ڈسکسش کرینگے، اتفاق رائے کرینگے تو فیصلہ کا اعلان کرینگے، اگر اتفاق رائے نہ ہوا تو فیصلہ محفوظ ہونے کا بتادیں گے۔
گزشتہ سماعت میں چیف جسٹس کی ساتھی ججز سے نوک جھوک
گزشتہ روز پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کے خلاف درخواست پر فیصلہ متوقع تھا تاہم ایم کیوایم کے وکیل فیصل صدیقی کے دلائل کے دوران ججز کے باربار سوالات اور پھر وکیل کی جانب سے جواب پر سماعت کا دورانیہ طویل ہوگیا، اور فیصلہ نہ ہوسکا۔
دوران سماعت باربار سوال کرنے پر چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے جسٹس اعجازالاحسن اور جسٹس منیب اختر کو ٹوک دیا اور کہا کہ اپنے سوال روک کر رکھیں۔ جس پر چیف جسٹس اور جسٹس اعجازالاحسن میں نوک جھوک بھی ہوئی۔
دوران سماعت بار بار سوال پوچھنے پر چیف جسٹس نے جسٹس منیب اختر کو ٹوک دیا۔ جس پر جسٹس منیب اختر نے کہا کہ میں بھی اس عدالت کا ایک جج ہو، سوال پوچھنا ایک جج کا حق ہے۔
چیف جسٹس نے جسٹس منیب اختر کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ آپ اپنے سوال ضرور پوچھے لیکن دلاٸل مکمل ہونے کے بعد۔
چیف جسٹس کی جانب سے سوالات سے روکنے کے باوجود جسٹس منیب اختر نے وکیل فیصل صدیقی سے دوبارہ سوال کیا تو چیف جسٹس نے جسٹس منیب سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ آپ نے ذہن بنا لیا تو فیصلے میں لکھ لیجیےگا، وکیل کو جیسے مرضی دلائل دینا ہوں گے دے گا۔
جسٹس منیب نے چیف جسٹس سے مکالمہ کرتے ہوئے جواب دیا کہ معذرت کے ساتھ میرا مسئلہ میرا سوال ہے اور جواب دیں۔
Comments are closed on this story.