پریکٹس اینڈ پروسیجر کیس کی سماعت آج بھی نامکمل: پارلیمنٹ نے اچھی نیت سے قانون سازی کی، چیف جسٹس
سپریم کورٹ میں پریکٹس اینڈ پروسیجر بل کے خلاف جاری کیس کی سماعت آج بھی مکمل نہ ہوسکی، چیف جسٹس نے ریمارکس میں کہا کہ ہے کہ باقی وکلاء کو کل ساڑھے گیارہ بجے سنا جائے گا۔
فی الحال (ن) لیگ کے وکیل صلاح الدین کے دلائل جاری ہیں۔
چیف جسٹس پاکستان نے پروسیجر ایکٹ کے خلاف دائر درخواستوں کی سماعت میں ریمارکس دیےکہ پارلیمنٹ نے اچھی نیت سے قانون سازی کی ہے، اگر کوئی مریض مر رہا ہو تو کیا میڈیکل کی سمجھ رکھنے والا صرف اس لیے مریض کو مرنے دے کہ وہ ڈاکٹر نہیں ہے ؟ پارلیمنٹ کو کہتے ہیں کہ نمبر گیم پوری ہونی چاہیئے لیکن ایک شخص آتا ہے اور پارلیمنٹ کو ربراسٹیمپ بنا دیتا ہے۔
دورانِ سماعت جسٹس منیب اختر نے ریمارکس دیے کہ سپریم کورٹ کو پارلیمنٹ تک محدود کردیا گیا ہے، جبکہ جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ کچھ رلنِ پارلیمان ہتک آمیز انداز میں عدلیہ کا ذکر کرتے ہیں، پارلیمنٹ پاکستان کےعوام کی نمائندہ ہے، کیا عوام نہیں کہہ سکتے کہ کورٹ کیسے چلے، عوام تو اصل ٹرسٹی ہیں۔
بیرسٹر صلاح الدین نے کہا کہ خلاف آئین قانون بنا تو عدالت کالعدم کرسکتی ہے، پارلیمنٹ کا اختیار اور قانون سازی کی آئین سے مطابقت الگ چیز ہے۔ آئین کے آرٹیکل 67 کو دیکھیں۔ جس پر جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ اٹارنی جنرل نے بھی آرٹیکل 67 کا حوالہ دے رکھا ہے۔
سماعت کا مکمل احوال
چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے پریکٹس اینڈ پروسیجر کیس کی سماعت کے دوران وکیل عابد زبیری سے مکالمہ کرتے ہوئے ریمارکس دیے کہ کم از کم امریکی سپریم کورٹ کے فیصلے کا توحوالہ دیں، ہمارا لیول اتنا نہ گرائیں کہ نیو جرسی کی عدالت کے فیصلے کو یہاں نظیر کے طور پر پیش کر رہے ہیں، ایک چیف جسٹس نے غلطی کی تو پارلیمنٹ کو نہیں کرنی چاہئے، کوئی غلطی ہوئی تو ازالے کی سب سے بڑی ذمہ داری عدالت کی ہے۔
سپریم کورٹ میں پریکٹس اینڈ پروسیجر کیس کی سماعت شروع ہوگئی ہے، چیف جسٹس قاضی فائزعیسی کی سربراہی میں فل کورٹ سماعت کررہا ہے۔
صدر سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن عابد زبیری کے دلائل
صدر سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن عابد زبیری نے دلائل کا آغاز کیا تو جسٹس اعجازالاحسن نے ریمارکس دیئے کہ پارلیمنٹ رولز نہیں بنا سکتی ںہ ہی رولز بنانے کیلئے قانون سازی کرسکتی ہے، رولز میں ردوبدل کرنے کا اختیار صرف سپریم کورٹ کے پاس ہے۔
چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیئے کہ آئین کہتا ہے کہ سپریم کورٹ اپنے پریکٹس اینڈ پروسیجر کے رولزبنانے کیلئے با اختیار ہے، اگر سپریم کورٹ آئین سے بالا رولز بناتا ہے تو کوئی تو یاد دلائے گا کہ آئین کے دائرے میں رہیں۔
جسٹس منیب اختر نے ریمارکس دیئے کہ آئین و قانون کے مطابق رولز بنانے کیلئے پابند کرنے کا مطلب موجودہ قانون کے مطابق رولز بنیں گے۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ آج ہم یہ کیس سن رہے ہیں اور ہمارے ادارے میں کیسز کا بوجھ بڑھ رہا ہے، آج کیس کو ختم کرنا ہے، ہم میں سے جس کو جو رائے دینی ہے فیصلے میں لکھ دیں گے۔
چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ آپ نے تحریری دلائل جمع کرائے تھے۔ جس پر وکیل عابد زبیری نے بتایا کہ ابھی اپنا تحریری جواب جمع کرایا ہے۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ عدالت نے پہلے سے تحریری دلائل جمع کرانے کا حکم دیا تھا، اتنے سارے کاغذ ابھی پکڑا دیے، کون سے ملک میں ایسے ہوتا ہے کہ کیس کی سماعت میں تحریری جواب جمع کراؤ، ہر بات میں امریکی اور دوسری عدالتوں کا حوالہ دیتے ہیں یہاں بھی بتائیں۔
وکیل عابد زبیری نے کہا کہ نیوجرسی کی عدالت کے فیصلے کا حوالہ دینا چاہتا ہوں۔ جس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ کم از کم امریکی سپریم کورٹ کے فیصلے کا توحوالہ دیں، ہمارا لیول اتنا نہ گرائیں کہ نیو جرسی کی عدالت کے فیصلے کو یہاں نظیر کے طور پر پیش کر رہے ہیں، یہ تو فیصلہ بھی نہیں ہے۔
جسٹس اعجازالاحسن نے ریمارکس دیے کہ سوال ہے کہ سپریم کورٹ رولز بنانے کا اختیار کہاں اور کس کو دیا گیا ہے، آئین کے مطابق رولز بنانے کا اختیارسپریم کورٹ کے پاس ہے، سپریم کورٹ کے رولز بنانے کا اختیار آئین کے مطابق ہے۔
جسٹس منیب اختر نے ریمارکس دیے کہ ہر چیز آئین کے ہی مطابق ہوسکتی ہے سب کو معلوم ہے۔
وکیل عابد زبیری نے عدالت میں مؤقف اپنایا کہ رولز بنانے کے اختیار سے متعلق آئینی شق کو تنہا نہیں پڑھا جاسکتا۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ فل کورٹ مقدمہ سن رہی ہے تاکہ وکلا سے کچھ سمجھ اور سیکھ سکیں، آئینی شقوں پر دلائل دیں۔
جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیے کہ آئینی شقوں کو ملا کر پڑھنا ہوتا ہے، کچھ آرٹیکل اختیارات اور کچھ حدود واضح کرتے ہیں۔ جس پر وکیل عابد زبیری نے کہا کہ یہ تو معزز سپریم کورٹ کا فیصلہ بھی ہے۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ معزز سپریم کورٹ نہیں ہوتی، معزز ججز ہوتے ہیں، اصطلاحات ٹھیک استعمال کریں۔
جسٹس جمال مندوخیل نے ریمارکس دیے کہ ہم یہاں آئین اور قانون سازوں کی نیت دیکھ رہے ہیں، اگر آئین سازوں کی نیت دیکھنی ہے تو آرٹیکل 175 دیکھیں، آئین سازوں نے اختیار سپریم کورٹ کو دینا ہوتا تو واضح لکھ دیتے، اگر کوئی بھی ضابطہ قانون یا آئین سے متصادم ہوگا تووہ خود ہی کالعدم ہو جائے گا۔
چیف جسٹس قاضی فائز عیسٰی نے ریمارکس دیے کہ میں سوال واضح کر دیتا ہوں، جوڈیشل کمیشن اورسپریم جوڈیشل کونسل کے رولز سے متعلق آئین میں لکھا ہے کہ آئینی باڈیز خود قانون بنائیں گی، جب سپریم کورٹ کے ضابطوں سے متعلق آرٹیکل 191میں لکھا ہے کہ قانون سے بھی بن سکتے ہیں، سوال ہے کہ آئین سازوں نے خود آئین کے ساتھ قانون کا آپشن دیا۔
چیف جسٹس نے عابد زبیری سے مکالمہ کرتے ہوئے ریمارکس دیے کہ ایک چیف جسٹس نے غلطی کی تو پارلیمنٹ کو نہیں کرنی چاہئے، کوئی غلطی ہوئی تو ازالے کی سب سے بڑی ذمہ داری عدالت کی ہے، پاکستان میں 184 تین کا اطلاق کیسے ہوتا ہے؟ ہم آپ کی رائے سننا چاہتے ہیں۔
جسٹس مظاہر نقوی نے ریمارکس دیے کہ سپریم کورٹ کے رولز پر پارلیمنٹ نے پابندی لگائی، ہائیکورٹ اور شرعی عدالت کے ضابطوں پر پابندی کیوں نہیں۔
جسٹس اعجازالاحسن نے ریمارکس دیئے کہ ہائیکورٹس اپنے پریکٹس اینڈ پروسیجر بنانے کیلئے بااختیار ہے۔ جس پر وکیل عابد زبیری نے جواب دیا کہ اگر سپریم کورٹ اپنے رولز خود بنالے تو کوئی اعتراض نہیں اٹھا سکتا، آئین کہتا ہے کہ سپریم جوڈیشل کونسل اپنے قوانین خود بنائے گی۔
چیف جسٹس پاکستان نے استفسار کیا کہ پاکستان میں 184تھری کا استعمال کیسے ہوا، کیا ہیومن رائٹس سیل کا تذکرہ آئین یا سپریم کورٹ رولز میں تذکرہ ہے، آرٹیکل 184 تھری سے متعلق ماضی کیا رہا, یا تو کہہ دیتے کہ 184تھری میں ہیومن رائٹس سیل بن سکتا تھا،اس بات پر تو آپ آنکھیں بند کر کے بیٹھ گئے ہیں۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ اس سے پہلےکہ دنیا انگلی اٹھائے میں خود اپنے اوپر انگلی اٹھا رہا ہوں، ایک چیف جسٹس نےغلطی کی تو پارلیمنٹ درست کر سکتی ہے یا نہیں؟ نیو جرسی نہ جائیں، پاکستان کی ہی مثال دے دیں، سپریم کورٹ غلطی کرے تو کیا پارلیمنٹ درست کر سکتی ہے۔
چیف جسٹس نے وکیل عابد زبیری سے سوال کیا کہ آپ پی ٹی آئی کی نمائندگی نہیں کر رہے۔ جس پر وکیل عابد زبیری نے جواب دیا کہ نہیں میں سپریم کورٹ بار کی نمائندگی کر رہا ہوں، آپ کی رائے سن چکا ہوں، ابھی آرٹیکل 184تھری پر آ رہا تھا، میں آپ سے متفق ہوں کہ آرٹیکل 184 تھری کاغلط استعمال ہوتا رہا۔
جسٹس جمال مندوخیل نے استفسار کیا کہ ایکٹ سے کون سے بنیادی حقوق متاثر ہوئے یہ بتا دیں۔ جس پر وکیل عابد زبیری نے جواب دیا کہ سپریم کورٹ میں اپیل کا حق صرف آرٹیکل 185 کے تحت ہے۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ اس مقدمے کو بھی ہم آرٹیکل 184 تھری کے تحت سن رہے ہیں، آپ کے مطابق دائرہ اختیار نہ پارلیمنٹ بڑھا سکتا ہے نہ سپریم کورٹ، پھر ہم یہ کیس کیوں سن رہے ہیں، سپریم کورٹ آرٹیکل 184 تھری کا دائرہ بڑھائے تو ٹھیک، پارلیمنٹ بڑھائے توغلط ہے۔
وکیل عابد زبیری نے موقف پیش کیا کہ سپریم کورٹ میں اپیل کا حق صرف آرٹیکل 185 کے تحت ہے، آئین کے اصل دائرہ اختیار 184 تھری میں اپیل کا حق نہیں دیا گیا۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ جوابی دلیل میں یہ دے سکتا ہوں کہ آرٹیکل 184 تھری کااستعمال کیسے ہوا، کسی سیاسی جماعت پر پابندی عائد ہو جائے تو کیا اپیل نہیں ہونی چاہیے، پارلیمنٹ نے اچھی نیت سے قانون سازی کی۔
جسٹس اعجازالاحسن نے ریمارکس دیے کہ اس کیس میں اچھے برے یا صحیح غلط کا سوال نہیں، اختیارکا سوال ہے قانون جتنا بھی اچھا ہو، رولز بنانے کا اختیار پارلیمنٹ کے پاس ہے یا نہیں۔
جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیے کہ سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر سے زیادہ بڑا مسئلہ جبری گمشدگیوں کا ہے، اگرچیف جسٹس یہ کیس پہلے مقررکر رہے ہیں اور جبری گمشدگیوں سے متعلق نہیں تو پارلیمنٹ قانون سازی نہیں کرسکتی۔
جسٹس اعجازالاحسن نے کہا کہ یہ نہیں ہوسکتا کہ قانون سازی درست ہے تو ٹھیک ورنہ اس کو کالعدم قراردے دیں، آئین اس طرح سے نہیں چل سکتا۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ کہ ماضی کو دیکھیں، ایک شخص آتا ہے اور پارلیمنٹ کو ربر اسٹیمپ کردیتا ہے، امریکا میں یہ سب نہیں ہوتا، ہمارا ماضی بہت بوسیدہ ہے۔
درخواستگزار عمر صادق کے وکیل عدنان خان کے دلاٸل
عدالت نے پریکٹس اینڈ پروسیجر کیس کی سماعت میں وقفہ کردیا، وقفے کے بعد سماعت شروع ہوئی تو درخواستگزار عمر صادق کے وکیل عدنان خان نے دلاٸل کا آغاز کیا۔
وکیل عدنان خان نے مؤقف پیش کیا کہ پارلیمنٹ کو سپریم کورٹ کے رولز بنانے کا اختیار حاصل نہیں، آئین سازوں نے پارلیمنٹ کو سپریم کورٹ کے رولز میں ردوبدل کا اختیار نہیں دیا، چیف جسٹس کے آفس کو پارلیمنٹ نے بے کار کر دیا، سپریم کورٹ2 بنیادوں پرکھڑی ہے، ایک چیف جسٹس اور دوسرا باقی ججز۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ چیف جسٹس کو جہاں اختیارات دیے گئے وہ آئین میں درج ہیں، چیف جسٹس کو سپریم کورٹ کے سوا کہاں تنہا اختیارات دیے گئے۔
وکیل عدنان خان نے مؤقف اختیار کیا کہ آئین کہتا ہے چیف جسٹس خود بغیر مشاورت بنچز بنا سکتا ہے۔
جسٹس اطہر من اللہ نے استفسار کیا کہ اس قانون سے آپ کا کون سا بنیادی حق متاثر ہوا ہے؟، آپ اپنے کون سے بنیادی حق کا دفاع کر رہے ہیں۔ جس پر وکیل عدنان خان نے مؤقف پیش کیا کہ پارلیمنٹ کو قانون سازی کا کوئی اختیار نہیں، قانون سازی سے تمام بنیادی حق متاثر ہوتے ہیں، ایکٹ سے انصاف تک رسائی کے آرٹیکل 4 کی خلاف ورزی ہوئی، ایکٹ میں طریقہ کار دے کرسپریم کورٹ کی تضحیک کی گئی۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ ہم پہلے بھی کیس مقرر کرنے کیلئے اپنا دماغ استعمال کرتے تھے، میں نے کیس منیجمنٹ کمیٹی کو کیسز کے تقرر کا اختیار دیا، کیا میں نے کیس منیجمنٹ کمیٹی بنا کر آئینی خلاف ورزی کی۔
وکیل عدنان خان نے کہ مشاورت اچھی چیز ہے، چیف جسٹس اپنے ساتھیوں میں سے کسی سے بھی مشاورت کر سکتے ہیں، اس قانون میں کہیں مشاورت کا درج نہیں ہے۔
چیف جسٹس نے استفسار کرتے ہوئے ریمارکس دیئے کہ کیا کوئی ایسا قانون یا شرعی قانون ہے کہ اپیل کا کوئی حق نہیں ہے، قانون کی رو میں کہاں درج ہے کہ قاضی کا فیصلہ آخری ہوگا، کوئی حوالہ دے دیجیے۔
وکیل عدنان خان نے جواب دیا کہ میں ریفرنس جمع کرا دوں گا۔ جس کے بعد وکیل عدنان خان کے دلائل مکمل ہوگئے۔
درخواست گزار محمد شاہد رانا ایڈووکیٹ کے دلائل
وکیل شاہد رانا نے دلائل شروع کرتے ہی سوال اٹھایا کہ اگر 15ججز فیصلہ کریں گے تو اپیل کس کے پاس جائے گی۔
چیف جسٹس نے جواب دیا کہ 15 ججزفیصلہ کریں گے تو نہیں ہوگی اپیل۔
وکیل شاہد رانا نے مؤقف پیش کیا کہ سپریم کورٹ میں اپیلیں آرٹیکل 185 کے تحت ہوتی ہیں۔ جس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ ہم آپ کو اس بات کا جواب فیصلے میں دے دیں گے، یہ معاملہ پہلے کبھی کیوں نہیں اٹھایا گیا، کیا پتا سپریم کورٹ نے اپنے اختیارات سے تجاوز کیا ہو۔
اٹارنی جنرل کو روسٹرم پر بلا لیا گیا
چیف جسٹس نے اٹارنی جنرل کو روسٹرم پر بلایا تو وکیل امتیاز صدیقی نے دلائل کے لیے وقت نہ دینے پر اعتراض اٹھا دیا، اور مؤقف پیش کیا کہ آپ نے کہا تھا کہ پہلے ہمیں سنیں گے پھر اٹارنی جنرل کو سنیں گے، ہمیں نہ سننا نا انصافی ہے۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ کہاں لکھا ہے حکمنامے میں کہ آپ کو ابھی سننا ہے۔ جس پر امتیاز صدیقی نے کہا کہ آپ ہمارے ساتھ اپنا سلوک دیکھیں۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ کوئی بات کرنے کی تمیز بھی ہوتی ہے، پچھلی سماعت کاتمام ججزکےدستخط کےساتھ حکمنامہ جاری ہوا، حکمنامہ میں درج ہے کہ امتیاز صدیقی کے دلائل مکمل ہو چکے۔
وکیل امتیاز صدیقی نے جواب دیا کہ میرے ساتھی آپ کے رویے کی وجہ سے آج عدالت نہیں آئے، خواجہ طارق رحیم نے آپ کو پیغام پہنچانے کا کہا ہے۔
چیف جسٹس نے وکیل امتیاز صدیقی پر برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ آپ اپنی نشست پر بیٹھ جائیے ورنہ میں کچھ ایشو کروں۔ جس پر وکیل امتیاز صدیقی واپس نشست پر براجمان ہو گئے۔
مسلم لیگ ق کے وکیل زاہد فخرالدین ابراہیم کے دلائل
اٹارنی جنرل نے عدالت سے کہا کہ مجھ سے پہلے مسلم لیگ ق کے وکیل دلائل دینا چاہتے ہیں۔ جس کے بعد مسلم لیگ ق کے وکیل زاہد فخرالدین ابراہیم نے دلائل شروع کئے چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ میرا قلم ہوا میں رہ جاتا ہے آپ اپنا پوائنٹ پورا کر دیں۔
جسٹس یحیی آفریدی نے وکیل سے کہا کہ آپ فل کورٹ کو اپنی رائے بتا دیں۔ جس پر وکیل زاہد ابراہیم نے کہا کہ یہ کیس خود تسلیم کر رہا ہے کہ پارلیمنٹ قانون سازی کرسکتی ہے۔
جسٹس عائشہ ملک نے استفسار کیا کہ کیسے ممکن ہے کہ ”سبجیکٹ ٹو لاء“ لکھ کر پارلیمنٹ کو اختیار دے دیا گیا ہو، آرٹیکل 188 اور آرٹیکل 191 میں فرق ہے۔
سپریم کورٹ نے سماعت میں آدھے گھنٹے کا وقفہ کردیا۔ وقفے کے بعد سماعت دوبارہ شروع ہوئی تو جسٹس یحیی آفریدی نے وکیل زاہد ابرہیم سے کہا کہ آپ آرٹیکل191سے اینٹری 55 کا تعلق سمجھا دیں۔
جسٹس منیب اختر نے ریمارکس دیے کہ ایکٹ کے ذریعے آئین میں بلاواسطہ ترمیم کی گئی، کیا آئین پارلیمنٹ کو ایسی قانون سازی کی اجازت دیتا ہے، آرٹیکل191 کے تحت قانون سازی کا اختیار بہت وسیع ہونا چاہئے، آپ 1956 کا آئین پڑھیں۔
چیف جسٹس نے وکیل زاہد ابراہیم سے مکالمہ کرتے ہوئے ریمارکس دیے کہ ضروری نہیں کہ آپ دلائل سے متفق ہوں۔ جسٹس منیب اختر نے ریمارکس دیے کہ بینچ میں بیٹھے جج کو حق حاصل ہے کہ وہ سوال کرے۔ جسٹس اعجازالاحسن نے سوال اٹھایا کہ پارلیمنٹ کو موجودہ قانون کا دائرہ بڑھانے کا اختیار ہے، اپیل کا حق دے کر قانون کا دائرہ بڑھایا کیسے گیا۔
وکیل زاہد ابراہیم نے جواب دیا کہ درخواست گزاروں سے سوال کیا گیا کون سا بنیادی حق متاثر ہوا۔ جس پر جسٹس اعجازالاحسن نے ریمارکس دیے کہ کوشش کی سپریم کورٹ کےکام کے طریقہ کار کو ریگولیٹ کیا جائے، عدلیہ کی مائیکرو مینجمنٹ مداخلت نہیں تو پھر کیا مداخلت ہوگی۔
جسٹس منیب اختر نے وکیل سے استفسار کیا کہ اس قانون کے بعد ماسٹر اف روسٹر کون ہے۔ جس پر زاہد ابراہیم نے جواب دیا کہ کمیٹی فیصلہ کرے گی۔ جسٹس منیب اختر نے ریمارکس دیے کہ کمیٹی نے پارلیمان ماسٹر آف روسٹر ہو گی۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ کیا ماسٹر آف روسٹر کا لفظ ہے، رولز میں چیف جسٹس کے بینچ مقرر کرنے کا ہے، مقدمات کا مقرر کرنے چیف جسٹس نے رجسڑار کا اختیار ہے، ماسٹر آف روسٹر کا لفظ کس قانون میں ہے۔
جسٹس منصور علی شاہ نے ریمارکس دیئے کہ دنیا میں اب کہیں بھی ماسٹرز نہیں۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ جو قانون ہے آئین ہے وہ چیف جسٹس کی خواہشات پر نہیں، یہ عدلیہ کیا آزادی اور قانون کے منافی ہے، میں ماسٹر نہیں آئین کے ماتحت ہوں۔
وکیل صلاح الدین نے مؤقف پیش کیا کہ سپریم کورٹ کے ججز کے حوالے سے بہت آرا آئی ہیں۔ جس پر جسٹس مظاہر علی اکبر نے ریمارکس دیئے کہ اپ اپنے دلائل شخصیت کو مدنظر رکھ کر دے رہے ہیں۔
جسٹس منیب اختر نے ریمارکس دیے کہ جو آرا دی گئی وہ انکی آرا ہو ں گی، کسی کا ایک مؤقف ہوتا ہے دوسرے کا دوسرا مؤقف، بہتر ہو گا کہ پارلیمان کے اختیار پر دلائل دیں۔
چیف جسٹس نے وکیل صلاح الدین سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ میں آپ کو سننا چاہتا ہوں اپنے دلائل دیں۔
وکیل صلاح الدین نے سابق جسٹس آصف سعید کھوسہ کے آرٹیکل کا حوالہ دیتے ہوئے مؤقف پیش کیا کہ موجودہ بینچ کے10ممبران بھی اختیارات پر آواز اٹھا چکے ہیں۔
جسٹس منیب اختر نے استفسار کرتے ہوئے ریمارکس دیے کہ کیا اس کا یہ مطلب ہے پارلیمنٹ کو اختیار مل گیا، کیا پارلیمنٹ ماسٹر آف روسٹر ہے اس نکتے پر آئیں، کس کی کیا رائے ہے وہ الگ بات ہے۔
جسٹس مظاہر نقوی نے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ صلاح الدین صاحب آپ اس نکتے پر آئیں جو ہمارے سامنے ہے، آپ جو دلائل دے رہے ہیں وہ کیا شخصیات کی حد تک ہیں۔
وکیل صلاح الدین نے جواب دیا کہ بینچ تشکیل کرنے کی پاور کوئی آئینی پاور نہیں ہے۔
جسٹس منیب اختر نے استفسار کیا کہ پ نے1861کا انڈیا ایکٹ دیکھا۔ جس پر وکیل نے جواب دیا کہ نو سر۔ جسٹس منیب اختر نے ریمارکس دیے کہ میں آپ کو بتاتا ہوں اس پاور کا آغاز وہیں سے ہوتا ہے، برطانوی راج کے دوران1861میں پہلا قانون بنایا گیا۔
جسٹس مظاہر نے استفسار کیا کہ ایکٹ میں جو اپیل کا حق دیا گیا اس پر آپ کیا کہیں گے۔ جس پر بیرسٹر صلاح الدین نے جواب دیا کہ قانون سازی سے اپیل کاحق دیا جا سکتا ہے۔
جسٹس مظاہر نقوی نے استفسار کیا کہ آپ کےمطابق کیا یہ قانون سازی دو تہائی سے ہونی ہے۔ وکیل صلاح الدین نے جواب دیا کہ سادہ قانون سازی سے ہی یہ ممکن ہے۔
جسٹس اعجازالاحسن نے استفسار کیا کہ کیا سادہ قانون سےعدالتی فیصلوں کی تشریحات بدلی جاسکتی ہیں۔ جس پر بیرسٹر صلاح الدین نے جواب دیا کہ نہیں انہیں تبدیل نہیں کیا جا سکتا۔
جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیے کہ آرٹیکل 191 صاف کہتاہے رولز سپریم کورٹ بنائے گی، یہ ایکٹ سپریم کورٹ کو ڈکٹیشن دے رہا ہے، ایکٹ کہتا ہے اتنے رکنی کمیٹی ہواتنارکنی بنچ بنائے۔
جسٹس اطہر من اللہ نے سوال اٹھایا کہ کیا پارلیمنٹ قانون سازی کی مجاز ہے یا نہیں، اگر پارلیمنٹ مجاز ہے تو پھر اسے ڈکٹیشن نہ کہیں۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ ایکٹ کےذریعے چیف جسٹس کے ساتھ 2 کو پائلٹ ہی لگائے گئے، ہم اپنے سائے اور کو پائلٹس سے گھبراتے کیوں ہیں، سوال یہی ہے پارلیمنٹ اس قانون سازی کی مجاز ہے یا نہیں، کیا یہ کہا جائے ہائیکورٹس سپریم کورٹ سے بہتر چل رہی ہیں۔
بیرسٹر صلاح الدین نے جواب دیا کہ یہ ہائیکورٹ ٹو ہائیکورٹ اور چیف جسٹس ٹو چیف جسٹس دیکھا جا سکتا ہے۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ یہ نہیں کہا جا سکتا پارلیمنٹ نے بدنیتی سے یہ کر دیا آوازیں تو وکلا اٹھا رہے تھے۔ جسٹس منیب اختر نے ریمارکس دیے کہ اگرسابق چیف جسٹس صاحبان کیخلاف باتیں یہاں اٹھائی جائیں مجھے شدید تحفظات ہیں، جو یہاں اپنا دفاع کرنے موجود نہیں ان کا معاملہ نہ اٹھایا جائے۔
عدالت نے کیس کی سماعت میں وقفہ کردیا، وقفے کے بعد دوبارہ سماعت شروع ہوئی تو جسٹس منیب اختر نے ریمارکس دیے کہ سپریم کورٹ کو پارلیمنٹ تک محدود کر دیا گیا۔
جسٹس منصور علی شاہ نے ریمارکس دیے کہ پارلیمنٹ کا کچھ لوگ ذکر ہتک آمیز طریقے سے کرتے ہیں، پارلیمنٹ پاکستان کے عوام کی نمائندہ ہے، کیا عوام نہیں کہہ سکتے کورٹ کیسے چلے وہ تو اصل ٹرسٹی ہیں۔
وکیل بیرسٹر صلاح الدین نے کہا کہ یہ نہیں کہا جا سکتا کہ اس ایکٹ کو ماننے سے غلط قانون سازی کا راستہ کھلے گا، کل کو اگر کوئی خلاف آئین قانون بنا تو عدالت کالعدم کر سکتی ہے، پارلیمنٹ کا اختیار ہونا نہ ہونا اور قانون سازی کی آئین سے مطابقت الگ چیزیں ہیں، آئین کے آرٹیکل 67 کو دیکھیں۔
جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ اٹارنی جنرل نے بھی آرٹیکل 67 کا حوالہ دے رکھا ہے۔
وکیل بیرسٹرصلاح الدین نے کہا کہ آئینی دستاویزات کی تشریح کے وقت کبھی بہت معمولی چیزوں پر ہم زیادہ انحصار کررہے ہوتے ہیں۔
جسٹس اعجازالاحسن نے کہا کہ سبجیکٹ ٹو لاء کے الفاظ کچھ پابندیاں عائد کرتے ہیں۔
بیرسٹر صلاح الدین احمد نے کہا کہ ماسٹر آف روسٹر پارلیمنٹ نہیں ہے۔ جس پر جسٹس منیب اختر نے ریمارکس دیے کہ قانون بنانے کا اختیار اگر وفاقی حکومت کو ہے تو پھر ماسٹر آف روسٹر تو وہی ہیں، کل کو پارلیمنٹ اختیارات کو کسی اور طرح بھی بدل سکتا ہے۔
جسٹس منصور علی شاہ نے ریمارکس دیے کہ پارلیمنٹ عوام کے منتخب نمائندوں سے بنی ہے، عوام کے منتخب نمائندوں نے قانون بنایا توہم عوام کے امین کے طور پر کیسے ان پر سوال اٹھا سکتے ہیں۔
جسٹس امین الدین خان نے استفسار کیا کہ اگرپارلیمنٹ سپریم کورٹ سے متعلق نئی قانون سازی کرے تو کیا وہ اینٹری 55 کے مطابق نہیں ہوگی؟۔ جس پر بیرسٹر صلاح الدین نے کہا کہ پارلیمنٹ کی قانون سازی اگر درست نہ ہو تو عدالت کالعدم قرار دے سکتی ہے۔
جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس میں کہا کہ آرٹیکل 184/3 کے تحت دائرہ کار قانون سازی سے کیسے بڑھ سکتا ہے یہ بتائیں، جن کیسز میں نظرثانی ہو چکی کیا انہیں بھی اپیل کا حق ملے گا؟ ۔
جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ 8 رکنی سے زیادہ بینچ بنا تو اپیل کا حق پھر بھی نہیں مل سکے گا، 7 رکنی یا کم بینچ بنا تو ہی اپیل کا حق ملا کرے گا، یہ طے کرنے کا پیمانہ کیا ہو گا کس کیس میں اپیل کا حق رکھنا ہے؟۔
اس پر بیرسٹر صلاح الدین نے کہا کہ ایک کیس فل کورٹ سن لے گی تو اپیل کی ضرورت نہیں بچے گی، سارے ججوں کو سن لینے کے بعد اپیل کی ضرورت نہیں رہتی۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ پیپلز پارٹی ملک کی ایک بڑی سیاسی جماعت ہے لیکن یہاں نماٸندگی نہیں، چلیں خیر ہے کسی کو فورس نہیں کرسکتے۔
بعدازاں عدالت نے کیس کی سماعت کل ساڑھے 11 بجے دوبارہ طلب کرلی۔
گزشتہ سماعت کا احوال
واضح رہے کہ چیف جسٹس نے گزشتہ سماعت میں عندیہ دیا تھا کہ 9 اکتوبر کو تیسری سماعت میں یہ کیس مکمل کرلیا جائے گا۔
کیس کی کارروائی آج بھی سپریم کورٹ سے سرکاری ٹی وی پر براہ راست دکھائی جائے گی۔
سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کی گزشتہ دو سماعتوں میں 5 درخواست گزاروں کے وکلا دلائل مکمل کرچکے ہیں۔
آج ہونے والی سماعت میں دیگردرخواست گزاروں کے وکلاء، اٹارنی جنرل، مسلم لیگ ن اور ق کے وکلاء دلائل دیں گے۔
اس سے قبل تمام فریقین سپریم کورٹ میں اپنے تحریری جوابات اور دلائل جمع کروا چکے ہیں۔ وکلاء کے دلائل مکمل ہونے کی صورت میں ممکنہ طور پر آج اس کیس کی سماعت مکمل ہوجائے گی۔
کیس کی سماعت کرنے والے فل کورٹ میں چیف جسٹس قاضی فائر عیسیٰ کے علاوہ جسٹس سردارطارق مسعود، جسٹس اعجازالاحسن، جسٹس سید منصور علی شاہ، جسٹس منیب اختر، جسٹس یحییٰ آفریدی، جسٹس امین الدین خان،جسٹس سید مظاہرعلی نقوی، جسٹس جمال خان مندوخیل، جسٹس محمد علی مظہر، جسٹس عائشہ اے ملک، جسٹس اطہر من اللّٰہ، جسٹس سید حسن اظہر رضوی، جسٹس شاہد وحید اور جسٹس مسرت ہلالی شامل ہیں۔
Comments are closed on this story.