Aaj News

پیر, دسمبر 23, 2024  
20 Jumada Al-Akhirah 1446  

فیض آباد دھرنا کیس: ایم کیوایم نے بھی نظرثانی واپس لینے کی درخواست دائرکردی

ایم کیو ایم اوررابطہ کمیٹی کےہدایات پرنظرثانی پرکارروائی نہیں چاہتے، وکیل ایم کیو ایم
شائع 05 اکتوبر 2023 01:05pm
فیض آباد میں ٹی ایل کے دھرنے کی تصویر۔  فائل: فوٹو
فیض آباد میں ٹی ایل کے دھرنے کی تصویر۔ فائل: فوٹو

ایم کیوایم نے بھی فیض آباد دھرنا کیس فیصلے کے خلاف نظرثانی درخواست واپس لینے کا فیصلہ کیا ہے اور سپریم کورٹ میں استدعا کی گئی ہے کہ ایم کیو ایم اوررابطہ کمیٹی کےہدایات پرنظرثانی پرکارروائی نہیں چاہتے۔

‏سپریم کورٹ میں فیض آباد دھرنا کیس کے فیصلے کے خلاف نظرثانی درخواستوں پر سماعت جاری ہے، اور طویل عرصے کے بعد 28 ستمبر کو کیس کی سماعت مقرر کی گئی تھی.

نظر ثانی درخواستوں پر سماعت چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں 3 رکنی بینچ کررہا تھا۔ تاہم اب تک تقریباً تمام فریقین نے اپنی اپنی نظر ثانی درخواستیں واپس لے لی ہیں۔

نظرثانی درخواستیں واپس لینے والوں میں اب ایم کیو ایم بھی شامل ہوگئی ہے، اور سپریم کورٹ میں فیض آباد دھرنا کیس کے فیصلے پر نظرثانی واپس لینے کی درخواست دائر کر دی ہے۔

ایم کیو ایم نے ایڈووکیٹ آن ریکارڈ محمود اے شیخ کے توسط سے دائر درخواست میں مؤقف پیش کیا ہے کہ ایم کیوایم اوررابطہ کمیٹی کےہدایات پرنظرثانی پرکارروائی نہیں چاہتے۔

ایم کیو ایم نے نظرثانی درخواست کب دائر کی

واضح رہے کہ سپریم کورٹ نے 2017 میں فیض آباد ٹی ایل پی کے دھرنے پر ازخودنوٹس لیا تھا۔ سپریم کورٹ نے اس مقدمے میں سخت آبزرویشن دی تھیں۔

11 اپریل 2019 کو تحریک انصاف، ایم کیو ایم نے بھی فیض آباد دھرنا کیس فیصلے پر نظرثانی درخواستیں دائر کی تھیں۔ ایم کیو ایم نے ایڈو کیٹ عرفان قادر اور پی ٹی آئی نے علی ظفر ایڈوکیٹ کے توسط سے درخواستیں سپریم کورٹ میں دائر کیں۔

ایم کیوایم کی درخواست میں موقف اپنایا گیا کہ عدالتی فیصلہ آئین کی شقوں 10 اے۔ 4۔5۔25 کی خلاف ورزی ہے۔فیض آباد دھرنا کیس کا پیرا گراف 22 قانون کے خلاف ہے۔ فیصلے کے پیراگراف 23 اور 24 مفروضوں کی بنیاد پر ہے۔ ان پیراگرافس میں 12مئی 2007 اور فیض آباد دھرنے کا موازنہ کیا گیا ہے۔

پی ٹی آئی کی درخواست میں کہا گیا کہ سپریم کورٹ اپنے فیصلے میں فیض آباد دھرنے کا موازنہ 2014 کے پی ٹی آئی کے دھرنے کے ساتھ کیا ہے۔سپریم کورٹ 6 فروری 2019 کے فیصلے پر نظر ثانی کرے۔

آئی بی کی نظر ثانی اور دستبرداری کی درخواستیں

آئی ایس آئی، وزارت داخلہ سمیت متاثرہ فریقین نے سپریم کورٹ میں 15 اپریل 2019 کو نظر ثانی درخواستیں دائر کی تھیں۔

تاہم 26 ستمبر کو انٹیلی جنس بیوروکے ڈپٹی ڈائریکٹر فاعد اسداللہ خان نے سپریم کورٹ میں متفرق درخواست دائرکی، جس میں کہا گیا کہ انٹیلیجنس بیورو فیصلہ کیخلاف نظر ثانی واپس لینا چاہتا ہے۔

آئی بی کے بعد پیمرا نے بھی درخواست واپس لے لی

27 ستمبر کو سماعت سے صرف ایک روز قبل پیمرا نے بھی سپریم کورٹ میں نظرثانی درخواست واپس لینے کی متفرق درخواست دائرکردی، جس میں مؤقف پیش کیا کہ فیض آباد دھرنا فیصلہ کیخلاف نظرثانی درخواستیں زیرالتواء ہیں، پیمرا نظر ثانی درخواست کی پیروی نہیں کرناچاہتا۔

پیمرا کی درخواست میں استدعا کی گئی کہ پیمرا کی متفرق درخوست واپس لینے کی استدعا منظور کی جائے۔

فیض حمید کیخلاف بھی کارروائی ہوتی ہے تو ہوجائے

28 ستمبر کو سپریم کورٹ میں اس حوالے سے دائر درخواستوں کی سماعت کے آغاز پر ہی پی ٹی آئی نے بھی اپنی نظرثانی درخواست واہپس لے لی تھی۔

اسی رات چیئرمین پی ٹی آئی کے ترجمان شعیب شاہین نے جیو نیوز کے پروگرام ’آج شاہزیب خانزادہ کے ساتھ‘ میں کہا کہ فیض آباد دھرنا کیس فیصلہ آئین و قانون کے مطابق ہے جس پر من وعن عملدرآمد ہونا چاہیئے۔ انہوں نے کہا کہ فیض حمید کیخلاف بھی کارروائی ہوتی ہے تو ہوجائے۔

مزید پڑھیں: نظرثانی درخواست واپس لینے کے بعد پی ٹی آئی کا فیض آباد دھرنا کیس فیصلے پر عملدرآمد کا مطالبہ

وکیل شعیب شاہین کا کہنا تھا کہ فیض آباد دھرنا نظرثانی کیس میں پی ٹی آئی کے وکیل علی ظفرتھے، میں تو حامد خان گروپ کے ساتھ پہلے ہی قاضی فائز عیسیٰ کے فیصلے کے حق میں تھا۔

انہوں نے اعتراف کیا کہ پی ٹی آئی نے غلطیاں کیں جن کا خمیازہ ہم بھگت رہے ہیں

MQM Pakistan

faizabad dharna case