Aaj News

اتوار, نومبر 03, 2024  
01 Jumada Al-Awwal 1446  

سرکاری سروے نے بھارتی ذات پات کے جبر کا پول کھول دیا، مودی کو خطرہ

مودی کو آئندہ انتخابات میں اپنی ناکامی کا خدشہ
شائع 05 اکتوبر 2023 09:54am
تصویر: اے ایف پی/ فائل
تصویر: اے ایف پی/ فائل

بھارتی ریاست بہار نے1947 میں ملک کی آزادی کے بعد پہلی مرتبہ ذات پات سے متعلق مردم شماری کے نتائج کا اعلان کردیا ہے۔

سروے میں بتایا گیا ہے کہ ریاست کی 130 ملین سے زیادہ آبادی میں دو تہائی سے زیادہ کا تعلق پسماندہ گروہ سے ہے۔ ان کی درجہ بندی کرکے تقسیم کیا گیا ہے۔

بھارت دنیا کے سب سے زیادہ غیر مساوی ممالک میں سے ایک ہے جس کے وسائل اور ملازمتوں کا بڑا حصہ مراعات یافتہ ذاتوں کے زیر کنٹرول ہے۔

آئندہ 2024 کے عام انتخابات سے چند ماہ قبل وزیر اعظم نریندر مودی اور ان کی ہندو قوم پرست جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کو پسماندہ ذاتوں میں اپنی مقبولیت کم ہونے کا خطرہ ہے۔

یہاں ایک سوال پیدا ہوتا ہے کہ ریاست بہار کی ذات کی مردم شماری کیا ظاہر کرتی ہے اور اس کے نتائج اتنے اہم کیوں ہیں؟ اگرچہ بھارت کی اکثریتی ہندو برادری کو روایتی طور پر مختلف ذاتوں میں تقسیم کیا گیا ہے لیکن ان ذاتوں اور ذیلی ذاتوں کی آبادی کے بارے میں کئی دہائیوں سے کوئی درست اعداد و شمار موجود نہیں ہیں۔

آخری بار ذات پات کی مردم شماری 1931 میں ہوئی تھی، جب بھارت انگریز راج میں تھا اور2011 میں ہونے والی ملک گیر مردم شماری کے نتائج کو کبھی منظر عام پر نہیں لایا گیا۔

بہارکے ذات پات کی مردم شماری کے اعداد و شمار سے پتہ چلتا ہے کہ یہاں پر غالب ذاتیں صرف 15.5 فیصد پر مشتمل ہیں، جبکہ پسماندہ ذاتیں ریاست کی 84 فیصد آبادی پر مشتمل ہیں، ان کے لیے تعلیم اور روز گار کے مواقع بھی کم ہے۔

اس ڈیٹا کے سامنے آنے کے بعد سے ملک بھر میں ممکنہ طور پر پسماندہ کمیونٹیز سے متعلق مہمات شروع ہوں گی، تاکہ مثبت کارروائی کی پالیسیوں پر نظرثانی کی جا سکے۔

بھارت کی نچلی ذاتیں پسماندہ ہیں اور ان کے لیےمواقع بھی کم ہیں اور وہ بڑے پیمانے پر امتیازی سلوک کے ساتھ ساتھ بدنامی کا بھی شکار ہیں۔

ٹاٹا انسٹی ٹیوٹ آف سوشل سائنسز میں پسماندہ ذاتوں کی سیاست کا مطالعہ کرنے والے ایک ریسرچ اسکالر یشونت زگڑے نے کہا کہ اعداد و شمار اس بات کا اعادہ کرتے ہیں کہ کس طرح غالب ذاتوں کے ایک چھوٹے سے تناسب نے سیاست سے لے کر میڈیا تک ہر چیز پر قبضہ کر رکھا ہے اور اسے کنٹرول کر رکھا ہے۔

انہوں نے کہا کہ ذات کی مردم شماری کا مطالبہ مختلف پسماندہ ذاتوں میں ذات پات کا ایک نیا شعور پیدا کرسکتا ہے، جو بی جے پی کے ہندوتوا منصوبے کے لیے خطرہ بن سکتا ہے، اگر ذات پات اہم مسئلہ بن جاتی ہے تو یہ ہندوتوا کو ختم کردے گی۔

واضح رہے کہ بھارت دنیا کی پانچویں بڑی معیشت کے طور پر ابھرا ہے لیکن امیر ترین اور غریب ترین لوگوں کے درمیان فرق بہت بڑا ہے۔

آکسفیم انڈیا نے اپنی 2023 کی رپورٹ میں کہا ہے کہ ملک کی 60 فیصد دولت امیر ترین 5 فیصد شہریوں کے پاس ہے۔

بھارت کی اپوزیشن جماعتیں ملک بھر میں اسی طرح کی ذات پات کی مردم شماری کرانے پر زور دے رہی ہیں۔

کانگریس پارٹی کے اپوزیشن لیڈر راہول گاندھی بار بار اصرار کرتے رہے ہیں کہ پسماندہ طبقوں کی آبادی میں ان کے حصے کے مطابق ان کے حقوق حاصل کرنے کے لیے متناسب نمائندگی دی جائے۔

ریسرچ اسکالر یشونت زگڑے نے کہا کہ اگرچہ اپوزیشن پارٹیاں ملک گیر ذات کی مردم شماری کو اپنی مہم کا بنیادی نقطہ بنانے کے خواہاں نظر آتی ہیں، لیکن زمینی حقائق پر ان کی کوششیں یہ فیصلہ کریں گی۔

انہوں نے کہا کہ سیاسی جماعتوں کو اس معاملے پر رفتار پیدا کرنی ہوگی، ووٹروں میں اس بارے میں بیداری پیدا کرنا ہوگی کہ اس طرح کے ذات پات کے اعداد و شمار انہیں کس طرح فائدہ پہنچا سکتے ہیں۔

ماہرین کا خیال ہے کہ ذات پات کے بارے میں ڈیٹا پر مبنی گفتگو ان لوگوں کو وسائل اور مواقع کی صحیح تقسیم کے قابل بنائے گی جنہیں اس کی سب سے زیادہ ضرورت ہے۔

Narendra Modi

ٰIndia

Caste Census