’فافن نے بنیادی انتظامی یونٹ کو نظر انداز کیا‘ الیکشن کمیشن کی حلقہ بندیوں پر وضاحت جاری
الیکشن کمیشن نے حلقہ بندیوں کے معاملے پر وضاحت کرتے ہوئے کہا ہے کہ فافن نے بنیادی انتظامی یونٹ کو نظر انداز کیا، جس سے ابہام پیدا ہوا، قومی اسمبلی کی 266 نشستیں آبادی کی بنیاد پرتقسیم کی گئی ہیں۔
الیکشن کمیشن کا کہنا ہے کہ آبادی کو مدِنظررکھتے ہوئے صوبے کا کوٹہ نکالا گیا، آبادی اور سیٹوں کو مدِنظر رکھتے ہوئے حلقہ بندی کی گئی۔
اس حوالے سے الیکشن کمیشن نے مزید کہا کہ ’فافن نے آبادی میں فرق کا تجزیہ کرتے وقت ضلعی یونٹ کو سیٹوں کے تعین کیلئے نہیں لیا، فافن نے بنیادی انتظامی یونٹ کو نظر انداز کیا، جس سے ابہام پیدا ہوا‘۔
الیکشن کمیشن نے مزید کہا کہ حلقہ بندیوں میں آبادی کے علاوہ اور اصول بھی ہیں جو الیکشنز ایکٹ 2017 کی سیکشن 20 میں درج ہیں۔
ایکٹ کی مزید وضاحت کرتے ہوئے الیکشن کمیشن نے کہا کہ سیکشن 20(3) بھی حالیہ ترمیم حقیقت کی تائید کرتی ہے کہ ضلع بنیادی یونٹ ہوگا۔
الیکشن کمیشن نے مزید کہا کہ انتخابی حلقوں میں 10 فیصد آبادی میں کمی و بیشی کی صورت میں وجوہات درج کی جانی ضروری ہیں، آبادی کا ڈیٹا ابتدائی حلقہ بندی میں پہلے ہی دستیاب ہے۔
180 حلقوں میں آبادی کا فرق 10 فیصد مجوزہ تبدیلی عمومی اجازت سے متجاوز قرار
اس سے قبل فافن نے 180 حلقوں میں آبادی کا فرق 10 فیصد مجوزہ تبدیلی کو عمومی اجازت سے متجاوز قرار دے دیا، فافن کے مطابق الیکشن کمیشن مجوزہ حلقہ بندیوں پراعتراضات مقامی سطح پروصول کرے، ادارہ شماریات کو آبادی کے تفصیلی اعداد و شمارجاری کرنے چاہئیں۔
فافن کی رپورٹ کے مطابق قومی و صوبائی اسمبلیوں کے 20 فیصد سے زائد مجوزہ حلقوں کی آبادی میں کمی بیشی کی شرح 10 فیصد کی قانونی حد سے متجاوز ہے، یہ فرق پارلیمنٹ سے منظور مساوی رائے دہی کے اصول کے بھی خلاف ہے، الیکشن کمیشن مجوزہ حلقہ بندیوں پر اعتراضات مقامی سطح پر وصول کرنے کا اہتمام کرے۔
الیکشن کمیشن ادارہ شماریات کو آبادی کے تفصیلی اعداد و شمار جاری کرنے کی ہدایت کرے، حلقہ بندیوں کی ابتدائی رپورٹ و مجوزہ حلقوں کی فہرستوں میں آبادی کے فرق پارلیمان سے منظورترمیم کے تحت نہیں کیا گیا، صرف 11 قومی اور ایک صوبائی اسمبلی کے حلقے میں حالیہ ترمیم کا اطلاق کرتے ہوئے بین الاضلاعی حلقے بنائے گئے ہیں، ان 11 قومی اسمبلی کے حلقوں میں سے 6 خیبر پختونخوا میں، 3 پنجاب اور 2 سندھ میں ہیں۔
مزید بھی پڑھیں
حلقوں میں آبادی کا فرق دس فیصد سے زیادہ نہ بڑھنے پائے، فافن
صوبائی اسمبلی کا ایک حلقہ ایک سے زائد اضلاع کے علاقوں پر مشتمل ہے، 10 فیصد سے زائد آبادی کے فرق والے حلقوں کی تعداد 2022 کی حلقہ بندیوں سے بھی بڑھ گئی ہے، الیکشن قواعد کو حالیہ ترمیم کے مطابق اپ ڈیٹ نہ کرنے کے باعث آبادی کی عدم مساوات سامنے آئی ہے، ایک پوری اسمبلی کے کسی بھی دو حلقوں کے درمیان آبادی کا فرق ہر ممکن حد تک 10فیصد سے کم ہونا چاہیئے۔
فافن کے مطابق قومی اسمبلی کے سب سے بڑے حلقے NA-39 بنوں کی آبادی 13 لاکھ 57 ہزار890 ہے جبکہ سب سے چھوٹے حلقہ این اے ون چترال کی آباد 5 لاکھ 15 ہزار935 ہے۔
این اے 39 کی آبادی این اے ون سے تقریبا 3 گنا زیادہ ہے، صوبائی اسمبلیوں میں بھی صورتحال مختلف نہیں ہے، مجوزہ حلقہ بندیوں پر ووٹروں کی جانب سے زیادہ اعتراضات دائرکیے جائیں گے، الیکشن کمیشن مجوزہ حلقہ بندیوں پر اعتراضات دائر کرنے کے عمل کو اسان بنائے۔
Comments are closed on this story.