بلوچستان: قرض میں ڈوبے سیلاب متاثرین رقم لیکر بیٹیوں کی شادیاں کرنے لگے
گزشتہ سال آنے والے سیلاب نے ملک بھر تباہی مچائی جس کے نتیجے میں قرض میں ڈوبے بلوچستان کے متاثرہ خاندان اپنی کم سن بیٹیوں کو فروخت کرنے پرمجبور ہیں۔
برطانوی نشریاتی ادارے نے گزشتہ سال بلوچستان میں آنے والے تباہ کن سیلاب کے اثرات سے متعلق اپنی رپورٹ میں پریشان کن صورتحال کا انکشاف کیا ہے جہاں کم آمدنی والے والے خاندان، سیلاب کے نتیجے میں مشکلات سے دوچار ہیں اور بڑھتے ہوئے قرضوں کے نتیجے میں اپنی بیٹیوں کی شادیاں کرنے پر مجبور ہیں۔
رپورٹ میں بتایا ہے کہ یہ سنگین صورتحال چوکی جمالی کے علاقے میں سامنے آئی، جو2022 کے سیلاب کے دوران سب سے زیادہ متاثرہ علاقوں میں شامل تھا۔
چوکی جمالی سندھ اور بلوچستان کی سرحد پر واقع ہے، بنیادی طورپرتقریباً 50,000 افراد کی آبادی پرمشتمل ہے، جن میں سے اکثر کسان اور یومیہ اجرت پرکام کرنے والے مزدور ہیں۔
سال 2022 میں 3.2 ملین سے زائد خاندان سیلاب سے بے گھر ہوئے، جس کے سب سے زیادہ سنگین نتائج سندھ اور بلوچستان کے صوبوں کو برداشت کرنا پڑے۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ یہ افراد معاشی طور بدحالی کا شکار ہونے کے باعث اپنی بیٹوں کی شادیاں بڑی عمر کے افراد کے ساتھ کرنے پرمجبور ہیں، جن کی عمریں 40 سے 60 سال کے درمیان ہیں۔
بدلے میں مالی طور پر رعایت ملے کی جس سے وہ اپنے قرضوں کی ادائیگی کے ساتھ ہی طبی اخراجات کو پورا کریں گے۔ یہاں پر مزدور کی یومیہ اجرت 500 روپے ہے، جس سے انہیں محسوس ہوتا ہے کہ جیسے ان کے پاس کوئی متبادل نہیں ہے۔
مقامی رہائشیوں کا کہنا ہے کہ اس علاقے میں ماضی میں بھی کم عمری کی شادیاں ہو چکی ہیں۔ اگست 2022 میں پراونشل ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی نے بلوچستان کے 14 اضلاع میں ایک سروے کیا، جس کے مطابق خواتین کے بچوں کو فروخت کرنے کے واقعات میں 13 فیصد اضافہ ہوا ہے۔
زیادہ ترکیسز میں لڑکیوں کو تین سے پانچ لاکھ روپے تک کی رقم کا تبادلہ کیا جاتا ہے، جو مالی طور پر تنگ دست خاندانوں کے لیے کافی ہوتا ہے۔ اس کی بدولت وہ اپنی مالی حالات، طبی ضروریات کے ساتھ رقم کو اپنے بیٹے کی تعلیم پر خرچ کرتے ہیں۔
بعض صورتوں میں لڑکیوں کو کئی بار فروخت کیا جاتا ہے، اگر وہ نئے حالات کے مطابق خود کو ڈھالنے میں ناکام رہتی ہیں، یہاں تک کہ کچھ لڑکیاں اپنی فروخت کے بارے میں جان کر بھاگ جاتی ہیں اور اپنی چھوٹی بہنوں کو ان کی جگہ شادی کرنے کے لیے چھوڑ دیتی ہیں۔
لڑکیوں کو ان مسائل کا سامنا تب کرنا پڑتا جب موسمیاتی تبدیلی کی وجہ سے صوبے میں بدحالی کی صورتحال پیدا ہوجاتی ہے۔ یہ صرف بلوچستان کے لیے نہیں کیونکہ یہ دوسرے خطوں جیسے افریقہ اور بھارت میں بھی ہوتا ہے، جہاں لوگ غربت اورموسمیاتی تبدیلی سے متاثر ہیں۔
ہیلتھ ورکز کا کہنا ہے کہ نوجوان لڑکیوں کو کم عمری میں شادی کی وجہ سے حمل کی پیچیدگیوں جیسے کئی مسائل کا سامنا ہوتا ہے۔ اس مسئلے سے آگاہ ہونے کے باوجود حکام نے ان کم عمری کی شادیوں کے خلاف کوئی بھی کارروائی نہیں کی ہے۔
حکومتی کمیشن برائے خواتین کی چیئرپرسن فوزیہ شاہین نے انکشاف کیا کہ بلوچستان میں کم عمری کی شادیوں سے نمٹنے کے لیے موثر قانون سازی کا فقدان ہے اور چائلڈ میرج ریسٹرنٹ بل کی منظوری کی کوششوں میں رکاوٹیں کھڑی کی گئی ہیں۔
بلوچستان میں یہ تکلیف دہ طور پر عیاں ہے کہ سیلاب سے ہونے والے نقصانات کا بوجھ خطے کی کمزور لڑکیاں برداشت کرتی ہیں، جنہیں سنگین معاشی حالات کے نتیجے میں کم عمری کی شادیوں پر مجبور کیا جاتا ہے۔
Comments are closed on this story.