بھارتی پناہ گزین کو ’مرد کا شوہر‘ درج کرکے ملک بدر کرنے کی کوشش پر برطانیہ کو سبکی کا سامنا
برطانوی وزارت داخلہ نے بھارت سے آئے ایک پناہ گزین کو کوئی اور شخص سمجھ کر ملک بدر کرنے کی کوشش پر سبکی کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔
وزارت داخلہ کے افسران نے کاغذی کارروائی کے دوران رنجیت سنگھ سمیت چار پناہ گزینوں کا ریکارڈ مکس کردیا، کیونکہ چاروں کا نام ہی رنجیت سنگھ تھا۔
حکام نے جس رنجیت سنگھ کو ملک بدر کرنے کی کوشش کی وہ حیران تھا ایسا کیوں کیا جارہا ہے۔
دراصل حکام نے متاثرہ 38 سالہ رنجیت سنگھ کو ریکارڈ میں ایک طالب علم کے زیر کفالت اور اس کا شوہر ظاہر کردیا جو برطانوی شہریت کے لیے درخواست دہندہ ہے۔
رنجیت سنگھ کے سیاسی پناہ کے کیس کی سماعت کے لیے ایک اپیل ٹریبونل نے سماعت ملتوی کر دی ہے جبکہ ان کے وکلاء درست سرکاری کاغذات کا انتظار کر رہے ہیں۔
ایم ٹی سی سالیسیٹرز کے ناگا کنڈیا نے کہا کہ ہوم آفس اپنے خطوط میں دیگر ”سنگھوں“ کی نجی معلومات ان کے مؤکل کو دے کر ڈیٹا پروٹیکشن قوانین کی خلاف ورزی کرنے کا بھی مرتکب ہوا ہے۔
ناگا کنڈیا نے کہا کہ ’ہمارے مؤکل کا کیس اس بات کی ایک مثال ہے کہ کس طرح ایک ناتجربہ کار کیس ورکر جس نے کیس کو چیک کیے بغیر کسی اور اس کی تفصیلات کاپی اور پیسٹ کر دیں‘۔
انہوں نے کہا کہ ’ان کے پاس درخواست پر کارروائی کرنے کے لیے ایک سال تھا اور انہوں نے پانچ منٹ کا کام کیا جس کے نتیجے میں GDPR کی خلاف ورزی ہوئی۔‘
متاثرہ رنجیت سنگھ نے 2007 میں بھارتی پنجاب کے ایک گاؤں سے برطانیہ پہنچنے پر پہلی بار سیاسی پناہ کی درخواست کی تھی جسے مسترد کر دیا گیا تھا، لیکن ان کا دعویٰ ہے کہ اس وقت انہیں مطلع نہیں کیا گیا تھا۔
رنجیت سنگھ نے 2021 میں برطانیہ میں رہنے کے لیے ’چھٹی کی درخواست‘ کی کیونکہ وہ اپنی شادی رجسٹر کرنا چاہتے تھے۔
انسانی حقوق کی بنیاد پر ان کی برطانیہ میں رہنے کی درخواست مسترد کر دی گئی تھی لیکن انکار کے خط میں متعدد غلطیاں تھیں۔
ان کی اہلیہ دلروکشی کا کہنا ہے کہ ان کے شوہر اپنی ان مسائل کی وجہ سے پیسہ کمانے سے قاصر تھے اور دو سال تک فیصلے کے انتظار کے بعد ”ذہنی طور پر کمزور“ ہو گئے تھے، صرف اس لیے کہ اس میں ان کی پوزیشن کے بارے میں غلطیاں تھیں۔
انہوں نے کہا، ’جب ہمارے وکیل نے کہا کہ ان کی درخواست مسترد ہونے کی ایک وجہ یہ ہے کہ ان کی پہلے ہی ہم جنس پرستوں کے ساتھ شادی ہو چکی تھی، ہم حیران رہ گئے‘۔
Comments are closed on this story.