ناسا کیپسول آئندہ صدی زمین سے ٹکرانے والے سیارچے کے نمونے لیکر زمین پر اتر گیا
امریکی خلائی ادارے ناسا کا خلائی کیپسول سیارچے کی سطح سے مٹی کا اب تک کا سب سے بڑا نمونہ لے کر مشن کے آغاز کے سات سال بعد یوٹاہ کے صحرا میں اترا ہے۔
غیر ملکی میڈیا کے مطابق ان نمونوں کو پیر کے روز ہیوسٹن میں ناسا کے جانسن اسپیس سینٹر کی ایک نئی لیبارٹری میں لے جایا جائے گا۔ اس عمارت میں تقریبا 400 کلو گرام (842 پونڈ) چاند کی چٹانیں موجود ہیں جو نصف صدی قبل اپولو کے خلابازوں نے جمع کی تھی۔
سائنس دانوں کا اندازہ ہے کہ اس کیپسول میں کاربن سے مالا مال سیارچے کا کم از کم ایک کپ ملبہ موجود ہے جسے بینو کے نام سے جانا جاتا ہے لیکن کنٹینر کے کھلنے تک اس کے بارے میں یقینی طور پر کچھ معلوم نہیں ہوگا۔
جاپان، سیارچوں کے نمونے واپس لانے والا واحد دوسرا ملک ہے، جس نے سیارچوں کے ایک جوڑے سے تقریبا ایک چائے کا چمچ جمع کیا۔
روپرٹس میں بتایا گیا ہے کہ یونیورسٹی آف ایریزونا سے تعلق رکھنے والے مشن کے سربراہ سائنسدان دانتے لوریٹا ان نمونوں کے ساتھ ٹیکساس جائیں گے۔ لینڈنگ سے پہلے انہوں نے کہا کہ ہیوسٹن میں اگلے ایک یا دو دن میں کنٹینر کا افتتاح ”سچائی کا حقیقی لمحہ“ ہوگا۔
اوسیرس ریکس نے اس کا نمونہ تین سال قبل 1999 میں دریافت ہونے والے ایک چھوٹے سیارچے بینو سے جمع کیا تھا۔ خلائی چٹان کو ”زمین کے قریب شے“ کے طور پر درجہ بندی کیا گیا کیونکہ یہ ہر 6 سال بعد ہمارے سیارے کے نسبتاً قریب سے گزرتا ہے۔
ایک اندازے کے مطابق بینو پتھروں کے ڈھیلے مجموعے سے بنا ہے، اس کی لمبائی 500 میٹر (1600 فٹ) ہے، جو ایمپائر اسٹیٹ بلڈنگ سے قدرے وسیع ہے لیکن چیکسولب سیارچے کے مقابلے میں چھوٹا ہے، جو تقریبا 66 ملین سال پہلے زمین سے ٹکرایا تھا۔
یہ نمونے 2020 میں اوسیرس ریکس خلائی جہاز کے ذریعے سیارچے بینو کی سطح سے حاصل کیے گئے تھے۔
رپورٹس کے مطابق ناسا اس چٹان کے بارے میں مزید جاننا چاہتا ہے، صرف اس لیے نہیں کہ اگلے 300 سالوں میں اس کے ہمارے سیارے سے ٹکرانے کے بیرونی امکانات موجود ہیں لیکن اس سے بھی بڑھ کر یہ نمونے 4.6 ارب سال پہلے نظام شمسی کی تشکیل کے بارے میں نئی آگاہی فراہم کریں گے اور ممکنہ طور پر ہماری دنیا میں زندگی کا آغاز کیسے ہوا۔
کار کے سائز کا کنٹینر 12 کلومیٹر فی سیکنڈ سے زیادہ کی رفتار سے مغربی امریکا کی فضا میں آیا تھا۔ ہیٹ شیلڈ اور پیراشوٹ نے اس کے اترنے کی رفتار کو سست کر دیا اور اسے آہستہ آہستہ زمین پر گرا دیا۔
سائنسدان اس قیمتی سامان کی جانچ کے لیے بے چین ہیں جس کے بارے میں لینڈنگ سے قبل اندازہ لگایا گیا ہے کہ اس کا وزن 250 گرام ہے۔
یونیورسٹی آف ایریزونا کے پروفیسر نے بی بی سی کو بتایا کہ ہم مستقبل میں کئی دہائیوں تک اس مواد پر کام کرتے رہیں گے۔
یہ 7 سال کا خلائی مشن تھا جس میں نظام شمسی کے سب سے خطرناک پتھر کہلائے جانے والے ایسٹرائڈ کا مطالعہ کیا گیا۔
اوسیرس ریکس خلائی جہاز سنہ 2016 میں زمین سے بینو کی طرف گیا تھا۔ اگلی صدی کے آخر میں اس کا ہماری زمین کے ساتھ ٹکرانے کے امکانات ہیں۔
500 میٹر چوڑے پتھر تک پہنچنے میں اس مشن کو دو سال لگے اور دو سال تک یہ اس خلائی پہاڑ کا مشاہدہ کرتا رہا جس کے بعد اس نے اس پتھر پر اتر کر نمونے حاصل کیے، یہ ایک بہت پیچیدہ اور مشکل کام تھا۔
اس سے پہلے 2004 میں جینیسس کیپسول جو سولر ونڈ کے نمونے لا رہا تھا اس کا پیراشوٹ کھل نہیں سکا اور یہ 300 کلومیٹر فی گھنٹہ کی رفتار سے گرا جس کی وجہ سے وہ ٹوٹ کر کھل گیا تھا۔
یوٹا ٹیسٹ اینڈ ٹریننگ رینج پر ماہر موسمیات نے گذشتہ دنوں میں موسم کی صورتحال کا پتا چلانے والے غبارے چھوڑے تاکہ آخری ڈراپ میں مدد کے لیے تازہ ترین معلومات حاصل کی جائے۔
کیپسول کو بھیجنے کے بعد ناسا کے مشن کو اپوفس شہابیے کی طرف جانے کے احکامات دے دیے گئے ہیں اور یہ توقع کی جا رہی ہے کہ وہ سنہ 2029 تک وہاں پہنچ جائے گا۔
Comments are closed on this story.