کینیڈا میں سکھ رہنما کا قتل: بھارت کے خلاف بین الاقوامی سطح پر کیا کارروائی ہوسکتی ہے؟
کینیڈا کے وزیر اعظم جسٹن ٹروڈو نے اعلان کیا ہے کہ ان کی حکومت کنیڈٰن سرزمین پر ایک سکھ رہنما ہردیپ سنگھ نجار کے قتل کے قتل کی تحقیقات کر رہی ہے، اور اس قتل میں بھارت کے ملوث ہونے کے ناقابل تردید شواہد موجود ہیں۔
اگر یہ الزامات ثابت ہو جاتے ہیں تو ہردیپ سنگھ نجار کی موت غیر ملکی سرزمین پر ٹارگٹڈ اور ماورائے عدالت قتل قرار دی جائے گی جو کہ بین الاقوامی قانون کی صریح خلاف ورزی ہوگی۔
ہندوستان برسوں سے کینیڈا پر الزام لگاتا رہا ہے کہ وہ نام نہاد خالصتان تحریک کے حامیوں کو پناہ دے رہا ہے، جو ہندوستانی ریاست پنجاب میں سکھوں کے لیے ایک آزاد وطن کے خواہشمند ہیں۔
مبصرین کا کہنا ہے کہ یہ تحریک 1980 کی دہائی میں اپنے عروج پر پہنچ چکی تھی، بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی کی حکومت اور ان کے حامیوں نے سکھ علیحدگی پسندوں کو قومی سلامتی کا ایک اہم معاملہ قرار دیا ہے۔
بین الاقوامی قانون کے ماہرین نے الجزیرہ کو بتایا کہ آنے والے دنوں میں سامنے آنے والی معلومات ہندوستان اور نجار کے قتل کے درمیان ممکنہ روابط کی نوعیت کو ظاہر کرنے میں کلیدی حیثیت رکھتی ہیں۔
کینیڈا کی ایک بین الاقوامی فوجداری وکیل امنڈا گھریمانی نے الجزیرہ کو بتایا، ’کینیڈا جس طرح سے اس معاملے سے نمٹنے کا انتخاب کرتا ہے اس سے ظاہر ہو گا کہ وہ اس معاملے کو کتنی سنجیدگی سے لے رہا ہے۔‘
گھریمانی نے کہا کہ کینیڈین حکومت کا نقطہ نظر اس بات پر منحصر ہوگا کہ ’وہ کس قسم کا پیغام دینا چاہتی ہے، نہ صرف ہندوستان کو، بلکہ کسی دوسرے ملک کو جو کینیڈا میں ممکنہ طور پر اس قسم کی حرکت کرنے کے بارے میں سوچ رہا ہے‘۔
کیا ہردیپ کے قتل سے بین الاقوامی قوانین خلاف ورزی ہوئی؟
پیر کو ہاؤس آف کامنز میں جسٹن ٹروڈو نے زور دے کر کہا کہ کینیڈا کی سرزمین پر غیر ملکی حکومت کی سرپرستی میں کوئی بھی قتل ملک کی خودمختاری کی خلاف ورزی ہے۔
برطانیہ کی یونیورسٹی آف ریڈنگ میں عوامی بین الاقوامی قانون کے پروفیسر مارکو میلانووک نے وضاحت کی کہ خودمختاری خلاف ورزی کا یہ الزام اگر سچ ثابت ہو جاتا ہے تو یہ ”روایتی بین الاقوامی قانون“ کی بھی خلاف ورزی ہوگی۔
میلانووچ نے الجزیرہ کو بتایا کہ، ’بنیادی طور پر ایک ریاست کو حکومتی اجازت کے بغیر اپنے ایجنٹس کو دوسری ریاست کی سرزمین پر بھیجنے کی اجازت نہیں ہے۔ یہ ایجنٹس قتل تو کیا حکومتی اجازت کے بغیرباغبانی بھی نہیں کرسکتے۔‘
گھریمانی نے مزید کہا کہ اگر ہندوستان ملوث پایا گیا تو یہ قتل اقوام متحدہ کے چارٹر کی خلاف ورزی ہوگی، جس میں کہا گیا ہے کہ ’تمام اراکین اپنے بین الاقوامی تعلقات میں کسی بھی ریاست کی علاقائی سالمیت یا سیاسی آزادی کے خلاف دھمکی یا طاقت کے استعمال سے گریز کریں‘۔
انہوں نے یہ بھی وضاحت کی کہ بین الاقوامی قانون ”دوسری ریاستوں کے لیے ریاستوں کی ذمہ داری“ کا خاکہ پیش کرتا ہے۔
بین الاقوامی انسانی حقوق کا نظام ”دیگر افراد کے لیے ذمہ داریاں عائد کرتا ہے“۔
گھریمانی کے مطابق، مثال کے طور پر، کینیڈا اور ہندوستان دونوں بین الاقوامی معاہدہ برائے شہری اور سیاسی حقوق (ICCPR) کے فریق ہیں، یہ ایک ایسا معاہدہ ہے جس میں ”جینے کا حق“ شامل ہے۔
’اس کا مطلب ہے کہ اس طرح کا قتل صرف بین الاقوامی قانون کی خلاف ورزی نہیں ہے، بلکہ یہ بین الاقوامی انسانی حقوق کے قانون کی بھی خلاف ورزی ہے‘۔
انہوں نے مزید کہا کہ ماضی میں ممالک نے غیر ملکی سرزمین پر افراد کو قتل کرنے کے لیے اپنے دفاع کو جواز کے طور پر پیش کیا ہے۔
یہ رجحان امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی انتظامیہ کی جانب سے 2020 میں عراق میں ایرانی جنرل قاسم سلیمانی پر ڈرون حملے کے بعد دیکھا گیا تھا، اسی طرح جب سابق صدر براک اوباما کی انتظامیہ نے 2011 میں پاکستان میں اسامہ بن لادن کو ہلاک کیا تھا تو یہی جواز پیش کیا تھا۔
گھریمانی نے کہا کہ ’میرے خیال میں قوی امکان یہ ہے کہ ہندوستان قتل میں ملوث ہونے سے انکار کرتا رہے گا‘۔
کینیڈا بین الاقوامی سطح پر کون سا راستہ اختیار کر سکتا ہے؟
کینیڈا نے اس قتل سے بھارت کو جوڑنے یا مشتبہ تعلق کی تحقیقات عوامی کرنے کے اپنے فیصلے کی حمایت کرنے کے لیے کوئی ثبوت جاری نہیں کیا۔
سرکاری ذرائع کا حوالہ دیتے ہوئے کینیڈا کے پبلک براڈکاسٹر سی بی سی نے جمعرات کو اطلاع دی کہ نجار کے معاملے میں کینیڈین حکام کی طرف سے جمع کی گئی انٹیلی جنس میں ہندوستانی حکام اور کینیڈا میں مقیم ہندوستانی سفارت کاروں کے رابطے شامل تھے۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ کچھ انٹیلی جنس نام نہاد ”فائیو آئیز“ انٹیلی جنس شیئرنگ الائنس میں ایک نامعلوم اتحادی کی طرف سے آئی ہے، جو کینیڈا، امریکہ، آسٹریلیا، برطانیہ اور نیوزی لینڈ پر مشتمل ہے۔
میلانووچ نے کہا کہ یہ اس بات پر منحصر ہے کہ ٹروڈو اور ان کی حکومت اس معاملے کو کس حد تک آگے بڑھانے کا منصوبہ بنا رہی ہے، اور اگر مزید حتمی شواہد سامنے آتے ہیں تو وہ بالآخر بین الاقوامی عدالت انصاف (آئی سی جے) میں مقدمہ چلا سکتے ہیں، جو کہ اقوام متحدہ کا اہم عدالتی ادارہ ہے۔
’تاہم، کینیڈا اور ہندوستان دونوں نے بنیادی طور پر اسی عدالت کے قانون کے تحت یہ کہتے ہوئے اعلان کیا کہ آئی سی جے دولت مشترکہ کے رکن ممالک کے درمیان تنازعات سے متعلق دائرہ اختیار نہیں رکھتی‘۔
’لہذا اصولی طور پر ایک ہی طریقہ ہے کہ یہ کیس اسی وقت آئی سی جے میں جا سکتا ہے جب ہندوستانی حکومت اس پر رضامندی ظاہر کرے، اور وہ اس پر رضامند نظر نہیں آتے۔‘
گھریمانی کے مطابق، اگر قتل کا معاملہ مناسب معیار پر پورا اترا تو کینیڈا بین الاقوامی انسانی حقوق کے فورم میں ہندوستان کے ساتھ اپنے تنازعہ کو حل کرنے کی کوشش کر سکتا ہے۔ ’اس معاملے میں، چونکہ یہ ایکٹ آئی سی سی پی آر کی خلاف ورزی ہے، اس لیے یہ ممکنہ طور پر اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کمیٹی کے تحت آئے گا‘۔
انہوں نے کہا کہ ’یہ عدالتی معاملہ نہیں ہے، لہذا یہ عدالتی فیصلہ نہیں ہوگا، لیکن یہ ایک ایسا عمل ہوگا جو دونوں ریاستوں کے درمیان اس مسئلے کو حل کرے گا۔‘
کیا یہ معاملہ اتنا دور جائے گا؟
گھریمانی اور میلانووچ دونوں نے اتفاق کیا کہ بین الاقوامی عدالت میں کیس کا فیصلہ ہونے سے پہلے کئی اقدامات کرنے ہوں گے۔
اس پیشرفت کا انحصار دیگر عوامل کے علاوہ ابھرنے والے شواہد، اوٹاوا کی سیاسی مرضی اور نئی دہلی کے ردعمل پر ہوگا۔
گھریمانی نے الجزیرہ کو بتایا کہ ’ہمیں یہ بات ذہن میں رکھنی ہوگی کہ ممکنہ کیس آئی سی جے تک پہنچنے سے پہلے کینیڈا معاوضے یا دیگر جیسا کہ ”دوبارہ ایسی حرکت نہ کرنے کے اعلان“ کے لیے بھارت کے ساتھ دو طرفہ طور پر بات کر سکتا ہے۔
میلانووچ نے یہ بھی نوٹ کیا کہ ’بین الاقوامی تنازعات کا ایک بہت چھوٹا حصہ کمرہ عدالت میں جاتا ہے‘، اس کے بجائے تنازعات سے عام طور پر براہ راست بات چیت اور گفت و شنید کے ذریعے نمٹا جاتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ آنے والے دنوں میں سامنے آنے والی معلومات (سرکاری اور غیر سرکاری دونوں چینلز کے ذریعے) ممکنہ طور پر اس راستے کی نشاندہی کرنا شروع کر دیں گی جو کینیڈا اختیار کرنے کا ارادہ رکھتا ہے۔
انہوں نے کہا، ’اگر ہمیں اس کے بارے میں تھوڑی یا مزید معلومات نہیں ملتی تو یہ معقول حد تک واضح ہو جائے گا کہ کینیڈین حکومت صرف اس کا انتظار کر رہی کہ یہ معاملہ خود بخود ٹھنڈا ہوجائے۔
لیکن اگر مزید حقائق سامنے آتے ہیں تو ’یہ اس بات کا اشارہ ہوگا کہ کینیڈا کی حکومت واقعی مزید دباؤ ڈالنا چاہتی ہے۔‘
کیا کوئی دوسرا راستہ ہے؟
گھریمانی نے کہا کہ یہ اس بات پر منحصر ہے کہ کون سے شواہد کو عام کیا جاتا ہے، بھارت کے پاس کئی مواقع موجود ہیں جن میں سے سب سے بنیادی ان لوگوں کے خلاف کارروائی کرنا جنہوں نے براہ راست قتل کا ارتکاب کیا۔
کینیڈین کی پولیس نے کہا ہے کہ وہ تین مشتبہ افراد کی تلاش کر رہی ہے۔
انہوں نے کہا کہ “کینیڈا کے حکام ممکنہ طور پر ایک دانشور مصنف کے پیچھے بھی جا سکتے ہیں اگر وہ اسے کسی ایسے شخص سے جوڑ سکیںض جو قتل میں ملوث ہو، اس میں ہندوستانی حکومت میں موجود وہ شخص بھی ہوسکتا ہے جس نے یہ حکم دیا ہو یا اس نے حملے کی منصوبہ بندی کی ہو’۔
گھریمانی نے مزید کہا کہ نجار کا خاندان ممکنہ طور پر بھارت کے خلاف سول مقدمہ بھی چلا سکتا ہے کیونکہ قتل کینیڈا کی سرزمین پر ہوا تھا۔ نتیجے کے طور پر، انہیں کینیڈا کے قانون کے تحت ایسا کرنے سے نہیں روکا جائے گا جو بیرون ملک انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے متاثرین کو ”کینیڈا میں غیر ملکی حکومتوں اور غیر ملکی ایجنٹوں کے خلاف مقدمہ“ لانے سے روکتا ہے۔
پھر بھی، گھریمانی نے کہا کہ وہ کینیڈا میں بین الاقوامی فورم میں کیس کی پیروی کو قدر کی نگاہ سے دیکھتی ہیں کیونکہ یہ ایک قانونی نظیر قائم کرے گا۔
انہوں نے کہا، ’میرے خیال میں کینیڈا مستقبل میں کسی بھی دوسری ریاست کی طرف سے اس طرح کے طرز عمل کو روکنے کے لیے یہاں بہت مضبوط موقف اختیار کر کے اپنے آپ پر احسان کرے گا۔‘
Comments are closed on this story.