Aaj News

ہفتہ, دسمبر 21, 2024  
19 Jumada Al-Akhirah 1446  

بھارتی جج نے ’سِنگھم‘ سمیت دیگر فلموں پر سوال اٹھا دیے

'بلاک بسٹر فلموں نے غلط مثال قائم کرتے ہوئے ایک خطرناک پیغام دیا'
شائع 23 ستمبر 2023 10:01am
فائل فوٹو
فائل فوٹو

سنگھم، دبنگ، شوٹ آؤٹ ایٹ لوکھنڈ والا، آن جیسی فلمیں اور ’سیکرڈ گیمز‘ ، ’دہلی کرائمز‘ جیسی ویب سیریز سمیت دیگر بھارت تو کیا پاکستان میں بھی انتہائی مقبول ہیں لیکن بھارتی جج نے ایسی فلموں میں پولیس کو ’ہیرو‘ اور بھارتی ججوں’ کو زیرو دکھانے پر نکتہ اعتراض کے ساتھ کچھ سوالات اٹھائے ہیں۔

بمبئے ہائی کورٹ کے جج گوتم پٹیل نے رائے دی ہے کہ ’سنگھم‘ جیسی بلاک بسٹر فلموں نے غلط مثال قائم کرتے ہوئے ایک خطرناک پیغام دیا۔

جسٹس پٹیل نے کہا کہ ایک ہیرو پولیس اہلکار کی جانب سے ’انصاف کی فوری فراہمی‘ کی سنیما تصویر نے نہ صرف غلط پیغام دیا بلکہ قانون کے مناسب عمل کے ساتھ ’بے صبری‘ کی حوصلہ افزائی بھی کی۔

انڈین پولیس فاؤنڈیشن کے سالانہ دن اور پولیس اصلاحات کے دن کے موقع پر منعقدہ تقریب سے خطاب کرتے ہوئے جسٹس گوتم پٹیل کا کہنا تھا کہ ’فلموں میں، ججوں کے خلاف پولیس ریل چلائی جاتی ہے،جنہیں نرم مزاج، ڈرپوک، موٹے اوراکثر بہت برے لباس میں دکھایا جاتا ہے۔ وہ عدالتوں پر قصورواروں کو چھوڑدینے کا الزام عائد کرتے ہیں۔ ہیرو پولیس اہلکاراکیلے انصاف فراہم کرتا ہے‘۔

انہوں نے کہا، ’سنگھم فلم کے کلائمکس سین میں دکھایا گیا ہے کہ پوری پولیس فورس پرکاش راج کے کردار میں ایک سیاستدان کے خلاف کارروائی کرتے دکھایا گیا ہے اورظاہر کیا گیا ہے کہاب انصاف مل چکا ہے۔ ہمیں سوچنا چاہیے کہ یہ پیغام کتنا خطرناک ہے‘۔

انہوں نےسوال اٹھایا کہ ’ یہ بے صبری کیوں؟’ ، اسے ایک ایسے عمل سے گزرنا پڑتا ہے جہاں ہم بے گناہی یا جرم کا فیصلہ کرتے ہیں۔ یہ عمل سست ہیں اور انہیں ایسا ہونا چاہئے۔ ایسے جلدی میں کسی فرد کی آزادی کو ضبط نہیں کیا جانا چاہئے۔

جسٹس پٹیل نے کہا کہ اگر اس عمل کو شارٹ کٹ کے حق میں چھوڑ دیا گیا تو ہم قانون کی حکمرانی کو ختم کردیں گے۔

جولائی 2011 میں ریلیز ہونے والی سنگھم ایک ایکشن فلم ہے جس کی ہدایتکاری روہت شیٹی نے کی ہے۔ یہ اسی عنوان سے 2010 میں بنائی جانے والی تامل فلم کا ری میک ہے۔ سِنگھم میں مرکزی کردار اجے دیوگن نے عطا کیا تھا۔

جسٹس پٹیل نے یہ بھی کہا کہ پولیس کی شبیہہ ’غنڈہ گردی، بدعنوان اورغیرذمہ دار‘ کے طورپرہے۔ جب عوام کو لگتا ہے کہ عدالتیں اپنا کام نہیں کررہی ہیں تو جب پولیس قدم اٹھاتی ہے تو وہ جشن مناتے ہیں۔

یہی وجہ ہے کہ جب ریپ کا ملزم مبینہ طور پر فرار ہونے کی کوشش کرتے ہوئے ان کاؤنٹر میں مارا جاتا ہے تو لوگ سوچتے ہیں کہ یہ صرف ٹھیک نہیں ہے بلکہ اس کا جشن منایا جاتا ہے۔ وہ محسوس کرتے ہیں کہ انصاف مل گیا ہے، لیکن کیا ایسا ہوا ہے؟۔

جسٹس پٹیل نے کہا کہ اس بات پرغور کریں کہ یہ نظریہ کتنا وسیع ہے اور ہماری مقبول ثقافت میں اس کی کتنی شدت سے عکاسی ہوتی ہے، خاص طور پر ہندوستانی سنیما میں۔

singham

indian judge

Bombay high court