Aaj News

اتوار, نومبر 24, 2024  
22 Jumada Al-Awwal 1446  

خیبرپختونخوا : 90 فیصد سے زائد خواتین وراثت میں حصے سے محروم

وراثت کے حصول میں رکاوٹ بننے والوں کیخلاف فوجداری قانون کے تحت کارروائی کا فیصلہ
اپ ڈیٹ 21 ستمبر 2023 02:16pm
تصویر/ وزارت انسانی حقوق
تصویر/ وزارت انسانی حقوق

”ہمارے معاشرے میں خواتین کو کمزور سمجھا جاتا ہے جبکہ جائیداد میں خواتین کا کسی حق کا تصور ہی نہیں کیا جاتا“، یہ الفاظ ضلع مردان کی تحصیل تخت بھائی کی 69 سالہ ساجدہ بی بی کے ہیں۔

وراثت میں 5 کنال اراضی کے حصول کے لیے ساجدہ نے 2009 میں سول عدالت سے رجوع کیا لیکن بھائیوں کی جانب سے مختلف قانونی رکاٹوں کے باعث تاحال ان کے کیس کا کوئی حتمی فیصلہ نہ ہوسکا۔

”اگر جائیداد میں حصہ مانگ لیا تو مجھے ماردیں گے یا وہ خود مرجائیں گے“، یہ کہانی پشاور کے علاقہ ریگی سے تعلق رکھنے والی 47 سالہ گل رخ بی بی (فرضی نام) کی ہے۔

گل رخ بی بی کے تین بھائی اور ایک بہن ہے جن کے والد تین سال قبل وفات پاچکے ہیں تاہم گل رخ اور اس کی بہن کو جائیداد میں کوئی حصہ تاحال نہیں ملا کیونکہ ان کے بھائیوں نے کبھی حصہ دینے کا نہیں سوچا اور بہنوں نے کبھی حصہ مانگنا نہیں۔

پشاور کے علاقہ نوتھیہ کی رہائشی 50 سالہ طاہرہ بیگم بھی وراثت میں حصہ ملنے سے محروم ہیں ۔ طاہرہ بیگم کے شوہر جب انتقال کر گئے تو 2021 میں وراثت میں حصے کے لیے صوبائی محتسب سے رجوع کرنے پر طاہرہ کے حق میں فیصلہ کیا گیا تاہم ایک سال سے زائد کا عرصہ ہونے کے بعد بھی فیصلے پر تاحال عملدرآمد نہ ہوسکا۔

سینئر قانون دان سیف اللہ کاکاخیل کا ماننا ہے کہ یہ مسئلہ صرف ساجدہ، گل رخ اور طاہرہ کا نہیں بلکہ خیبرپختونخوا میں 90 فیصد سے زائد خواتین وراثت میں حصہ سے محروم ہیں۔

خیبرپختونخوا میں خواتین آبادی

پاکستان بیورو آف سٹیٹسٹکس کی ویب سائٹ پر موجود 2017 کی مردم شمادی کے مطابق خیبرپختونخوا کی کل آبادی 3 کروڑ 55 لاکھ 1 ہزار 964 ہے جس میں خواتین کی تعداد 1 کروڑ 75 لاکھ 3 ہزار 443 ہے جو کل آبادی کا 49 اعشاریہ 30 فیصد ہے۔

خواتین کی جانب سے وراثت میں حصے کیلئے مقدمات

خیبرپختونخوا میں معلومات تک رسائی قانون(آر ٹی آئی) کے ذریعے صوبائی محتسب برائے خواتین کے وراثت میں حقوق کے تحفظ سے حاصل کردہ دستاویز کے مطابق وراثت میں حصہ لینے کے لیے اب تک 1430 خواتین نے شکایات دائر کی ہیں جس میں 975 کیسز تاحال زیر سماعت ہیں۔

دستاویز کے مطابق خواتین نے وراثت کے لئے سال 2020 میں 97 میں، 2021 میں 281، 2022 میں 619 اور رواں سال اب تک 433 شکایات جمع کروائی ہیں۔ دستاویز کے مطابق 94 کیسز کو متعلقہ عدالت بھیج دیا گیا ہے، 42 خواتین نے اپنے کیسز واپس لیے، 17 کیسز عدم پیروی کے باعث بند کئے گئے جبکہ 25 کیسز کو ہائیکورٹ میں چیلنج کیا گیا ہے۔

خیبرپختونخوا رائٹ ٹو انفارمیشن ایکٹ 2013 کے تحت مختلف سول عدالتوں سے حاصل کردہ دستاویز اور پشاور ہائیکورٹ سمیت مختلف ذرائع سے حاصل کردہ معلومات کے مطابق خیبرپختونخوا کی سول عدالتوں میں خواتین کی جانب سے وراثت میں حصول کے لیے مقدمات کی تعداد 5 ہزار سے زائد ہے۔

وراثت سے محروم خواتین کا تناسب اور وجوہات

مشتاق احمد جدون اور راشد خان کی جانب سے پاکستان جرنل آف کرمنالوجی کے لیے، ”خیبرپختونخوا میں خواتین کو وراثت سے محروم رکھنے کے طریقوں“ کے موضوع پر سروے میں 70 فیصد خواتین نے جواب دیا ہے کہ انہیں وراثت میں اپنے حصے کے بارے میں علم نہیں ہے جبکہ سروے کے دیگر سوالات کے جوابات میں 45 فیصد خواتین نے بتایا ہے کہ ورثاء کی فہرست سے انکا نام خارج کر دیا گیا ہے، 52 فیصد خواتین نے بتایا ہے کہ بھائیوں نے وراثت کے کاغذات پر انگوٹھے کا نشان لگایا یا خاندان کی خواتین سے ”مختارنامہ“ لیا گیا۔

سروے میں خواتین سے سوال گیا کہ وہ وراثت میں حصہ کیوں حاصل نہیں کرنا چاہتی ہیں جس پر 71 فیصد خواتین نے جواب دیا کہ وراثت کے حصول کا قانونی طریقہ پیچیدہ اور مہنگا ہے ، جبکہ 10 فیصد خواتین کو قانونی طریقہ کار کا کوئی علم نہیں ہے۔

جرنل آف اکنامکس اینڈ بزنس سے حاصل کردہ پی ایچ ڈی اسکالر عنبرین بی بی کی جانب ”وراثت میں خواتین کے حقوق کی طرف گھریلو سربراہ کا رویہ“ کے موضوع پر تحقیق میں انکشاف کیا گیا ہے کہ 86 فیصد سربراہ خواتین کو منقولہ جائیداد میں حصہ نہیں دینا چاہتے جبکہ 91 فیصد سربراہ چاہتے ہیں کہ اگر خواتین کو حصہ مل بھی جائے توان کا خود جائیداد پر کنٹرول نہیں ہونا چاہئیے۔

آواز فاؤنڈیشن پاکستان کی رپورٹ کے مطابق 70 فیصد خواتین اس لیے بھی وراثت میں حصہ نہیں مانگتیں کیونکہ انہیں والدین کے خاندان سے الگ تھلگ ہونے کا خدشہ ہے یا وہ جہیز کو وراثت کا متبادل سمجھتی ہیں۔

میراث، جہیزاورمہر میں فرق

دیوانی مقدمات کے ماہر محمد عبداللہ ایڈووکیٹ کا کہنا ہے کہ وراثت یا میراث، جہیز اور مہر تینوں مختلف چیزیں ہیں۔انہوں نے بتایا کہ وراثت یا میراث کسی عورت کو اپنے والدین، بہن بھائی یا شادی کی صورت میں شوہر اور بچوں سے بھی مل سکتا ہے لیکن مورث کا مرنا اور میراث میں کچھ باقی رہ جانا لازمی ہے۔

عبداللہ ایڈووکیٹ نے بتایا کہ جہیز بیٹی کی شادی میں والدین کی طرف سے دیا جانے والا سامان ہوتا ہے جو ایک روایتی یا ثقافتی عمل ہے۔ جبکہ مہر کسی عورت کو شادی کی صورت میں یا نکاح کے بدل میں شوہر یا سسرال سے ملتا ہے۔

گلوبل جینڈر گیپ انڈیکس میں پاکستان کا نمبر

خواتین کے حقوق کے لیے کام کرنیوالی پشاور ہائیکورٹ کی وکیل مہوش محب کاکاخیل سمجھتی ہیں کہ خواتین کے وراثت میں حصے سے انکار صنفی امتیاز پر مبنی ہے کیونکہ ہر مرد کو وراثت میں حصہ ملتا ہے لیکن ماں، بہن، بیوی سمیت دیگر خواتین کا وراثت پرحق تصورنہیں کیا جاتا۔

ورلڈ اکنامک فورم کی جانب سے گلوبل جینڈر گیپ انڈیکس 2023 کے مطابق دنیا میں کسی بھی ملک نے ابھی تک مکمل صنفی برابری حاصل نہیں کی ہے۔ رپورٹ کے مطابق 146 ممالک کی فہرست میں صنفی برابری کے لحاظ سے 91 فیصد کے ساتھ آئس لینڈ سرفہرست ہے جبکہ افغانستان سب سے آخرمیں ہے۔اسی طرح 87 فیصد کیساتھ ناروے دوسرے، 86 فیصد کیساتھ فن لینڈ تیسرے، 85 فیصد کیساتھ نیوزی لینڈ چوتھے اور 81 فیصد کیساتھ سویڈن پانچویں نمبر پر ہے۔

رپورٹ کے مطابق فہرست میں پاکستان کا 142 واں اور انڈیا کا 127 واں نمبر ہے۔

خواتین کی وراثت سے متعلق دین اسلام کا حکم

خیبرپختونخوا کے چیف خطیب مولانا طیب قریشی نے آج نیوز سے گفتگو میں بتایا کہ خواتین کا وراثت میں حصہ قرآن اور احادیث سے واضح ثابت ہے اور جو کوئی بھی خواتین کو وراثت سے محروم کرتا ہے تو اس کا یہ عمل حرام اور ناجائز ہے۔

مولانا طیب قریشی کا کہنا تھا کہ قرآن میں میراث کو فرض اور لازم کہا گیا ہےاسلئے کوئی مرد کسی خاتون کو وراثت میں حصہ دینے سے انکار نہیں کرسکتا۔ قرآن میں نماز کی تفصیلات بھی اتنی بیان نہیں کی گئیں جتنی میراث اور وراثت کی گئی ہیں جس سے وراثت کی اہمیت کا اندازہ ہوسکتا ہے۔

خواتین کے وراثتی حقوق کے تحفظ کے لیے قوانین

آئین پاکستان کے آرٹیکل 23 کے مطابق ہر شہری کو پاکستان کے کسی بھی حصے میں جائیداد حاصل کرنے، رکھنے اور تصرف کرنے کا حق حاصل ہے۔

مجموعہ تعزیرات پاکستان (پاکستان پینل کوڈ 1860) کے سیکشن 498 اے کے مطابق جو کوئی بھی دھوکہ دہی سے یا غیر قانونی طریقے سے کسی بھی عورت کو منقولہ یا غیر منقولہ جائیداد کی وراثت سے محروم کرتا ہے اسے قید کی سزا دی جائے گی جس کی مدت 10 سال تک ہو سکتی ہے لیکن پانچ سال سے کم نہیں ہو گی۔ یا 10 لاکھ روپے جرمانہ یا دونوں سزائیں دی جاسکتی ہیں۔

خیبرپختونخوا اسمبلی ویب سائٹ سے حاصل کردہ خیبرپختونخوا انفورسمنٹ آف ویمن اونر شپ رائٹس ایکٹ 2012 کے سیکشن 3 کے مطابق کوئی بھی شخص کسی عورت کی ملکیت یا ملکیت کے حق میں تخریب، خلاف ورزی، تخفیف یا رکاوٹ نہیں ڈالے گا۔

ایکٹ کے سیکشن 4 میں لکھا گیا ہے کہ جو بھی سیکشن 3 کی خلاف ورزی کرے گا اسے پانچ سال قید یا 50 ہزار روپے تک سزا دی جائے گی اور یہ سزا کسی دوسرے قانون کے ذریعہ فراہم کردہ سزا کے علاوہ ہوگی۔

ایکٹ کے سیکشن 4 کی ذیلی دفعہ 3 کے کے مطابق جب بھی کوئی عورت مقدمہ دائر کرے گی تو عدالت چھ ماہ میں مقدمہ کا فیصلہ کرے گی اورفیصلے یا حکم نامے کو مقامی پولیس کے ذریعے ایک ماہ کے اندر نافذ کیا جائے گا اور ایسا نہ کرنے کی صورت میں مذکورہ افسر کو دفعہ 5 کے تحت چارج کرکے پانچ سال تک قید کی سزا یا 50 ہزار روپے تک جرمانہ عائد کیا جائیگا۔

خیبر پختونخوا انفورسمنٹ آف ویمنز پراپرٹی رائٹس ایکٹ 2019 کے سیکشن 4 کے تحت کوئی بھی عورت جائیداد کی ملکیت یا قبضے سے محروم ہو جائے تو وہ سول کورٹ کی بجائے محتسب کو شکایت درج کر سکتی ہے اگر اس جائیداد کے بارے میں عدالت میں کوئی کارروائی زیر التوا نہ ہو۔

عدالتوں میں مقدمات التواء کا شکار کیوں ہیں؟

نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر پشاور کے ایک سول جج نے بتایا کہ ایشو فریم (فریقین کے مابین اصل قانونی مسئلہ یا تنازع کا تعین) کرنے کے بعد دیوانی مقدمات کو ایک سال میں نمٹانا ضروری ہے تاہم پیچیدہ قانونی طریقہ کار کے باعث وراثت سمیت دیگر دیوانی مقدمات کا فوری فیصلہ ممکن نہیں ، کیونکہ جائیداد سے متعلق کیس میں ایشو فریم کرنے میں کافی وقت لگ جاتا ہے یا پھر یکطرفہ کارروائی کی صورت میں فیصلہ پر پہنچتے ہی مدعا علیہ سامنے آجاتا ہے جس کے باعث ازسر نو کارروائی شروع کرنی پڑتی ہے۔

کئی کیسز میں فریقین پر نوٹس یا آرڈر کیخلاف عدالتوں سے حکم امتناع (سٹے) حاصل کرلیتے ہیں اور پھر اس پر فیصلہ آنے تک اصل مقدمے کو نہیں سنا جاسکتا۔ سول جج کا کہنا تھا کہ مقدمات زیادہ ہیں اور ججز کی تعداد انتہائی کم ہے جبکہ وکلاء کی جانب سے عدم تعاون اور ہڑتال بھی مقدمات کے التواء کا شکار ہونے کا سبب ہے۔

خیبرپختونخوا میں ججز کی کمی

پشاور ہائیکورٹ سے حاصل کردہ معلومات کے مطابق خیبرپختونخوا میں 125 سول ججز کی آسامیاں خالی ہیں کیونکہ صوبے میں سول ججز کی منظور شدہ آسامیوں کی تعداد 398 ہے جبکہ مختلف اضلاع میں اس وقت 273 سول ججز کام کررہے ہیں۔

پشاورہائیکورٹ کی ویب سائٹ سے حاصل کردہ جوڈیشل ریفارمز اسٹریٹجی کے مطابق خیبرپختونخوا میں آبادی کے لحاظ سے ججز کی تعداد انتہائی کم ہے۔ دستاویز کے مطابق 10 لاکھ آبادی کے لیے امریکا میں 107، کینیڈا میں 75، برطانیہ میں 51،آسٹریلیا میں 41 اور انڈیا میں 18 ججز تعینات ہیں لیکن خیبرپختونخوا میں ہر 10 لاکھ کی آبادی کے لیے 13 ججز ہیں۔

وراثت میں حصے کے حصول میں مسائل کا حل

پشاورہائیکورٹ کی وکیل عظمیٰ ستار کا ماننا ہے کہ خواتین کی وراثتی حقوق سے متعلق مؤثر قانون سازی ہوچکی ہے لیکن اب اس پر مؤثر انداز میں عملدرآمد کیساتھ ساتھ خواتین میں وراثتی حقوق سے متعلق آگاہی انتہائی ضروری ہے کیونکہ جب تک خواتین کو خود حقوق اوراس سے متعلق قوانین کا علم نہیں ہوگا تو ان کے لیے حقوق کی پامالی روکنا ممکن نہیں۔

سیف اللہ کاکاخیل نے بتایا کہ وراثت میں سب سے بڑا مسئلہ نادرا کے پاس خواتین کی رجسٹریشن نہ ہونے کا ہے اس لیے حکومت کو چاہئیے کہ ایک پروگرام کے تحت گھر گھر جاکر خواتین کی رجسٹریشن کو یقینی بنایا جائے کیونکہ جب نادرا کے پاس رجسٹریشن ہوگی تو جعلی انگوٹھے لگوانے کا سلسلہ بھی ختم ہوگا۔

سیف اللہ کا کہنا تھا کہ اکثر اوقات محتسب یا عدالتی فیصلوں پر بھی عملدرآمد نہیں ہوتا جس کی باقاعدہ مانیٹرنگ ہونی چاہئیے تاکہ اندازہ لگایا جاسکے کہ کن وجوہات کی بناء پر عملدرآمد نہیں ہوتا۔

مہوش محب کاکاخیل نے آج نیوز سے گفتگو میں کہا کہ خواتین کی وراثت سے متعلق شکایات کی شنوائی کے لئے قانون کے تحت صوبائی محتسب کا اختیار دینا خوش آئند ہے لیکن پورے صوبے کے لیے صرف ایک محتسب ناکافی ہے بلکہ صوبائی محتسب کے ذریعے مسائل حل ہونے کی بجائے محتسب کی عدالت میں اب شکایات کا انبار لگ گیا ہے۔

اُن کا کہنا ہے کہ وراثت صرف قانونی نہیں بلکہ دین اسلام کا بھی حکم ہے اس لیے علماء کو وراثت سے متعلق آگاہی میں اپنا کردار ادا کرنا ہوگا۔ انہوں ن آگاہی سے متعلق مشورہ دیتے ہوئے کہا کہ کورونا وباء کے دوران ڈائل ٹون کے ذریعے ایک عرصے کے لئے مہم چلائی گئی اسی طرح واراثت کے مسئلے کو اجاگر کرنا ناگزیر ہے۔

مہوش محب کاکاخیل سمجھتی ہیں کہ وراثت سے متعلق مقدمات میں خواتین کو مفت قانونی معاونت فراہم کرنے کی ضرورت ہے کیونکہ دیوانی مقدمات کئی سال چلتے ہیں اور اکثر خواتین پیسے نہ ہونے کی وجہ سے مقدمات کی پیروی نہیں کرپاتیں ۔ انہوں نے بتایا کہ تعلیمی اداروں میں صنفی مساوات کا درس وقت کی اشد ضرورت ہے جس کے ذریعے نہ صرف آگاہی پیدا ہوگی بلکہ مستقبل میں وراثت کا مسئلہ بھی حل ہوگا۔

خواتین کے حقوق کے لئے کام کرنیوالی ”دہ حوا لور“ تنظیم کی لیگل ایڈوائزر عائشہ خورشید نے آج نیوز سے گفتگو میں کہا کہ وراثت میں خواتین کے حصہ کو تحفظ کے لئے کسی ادارے یا فرد کی انفرادی ذمہ داری سے مسئلہ حل نہیں ہوگا بلکہ زندگی کے ہر شعبے سے تعلق رکھنے والے کو کردار ادا کرنا ہوگا اس لیے ان کی تنظیم نہ صرف صوبے بھر میں خواتین کی آگاہی کے لئے مہم چلا رہی ہے بلکہ خواتین کو وراثت کے حصول کے لئے مفت قانونی معاونت بھی فراہم کررہی ہے۔

عائشہ خورشید کی تجویز ہے کہ صوبائی محتسب اچھا ادارہ ہے تاہم پورا صوبہ محتسب کے حوالے کرنا مناسب نہیں کیونکہ دوردراز علاقوں کی خواتین کو صوبائی محتسب تک رسائی آسان نہیں اس لیے ریجنل اور ضلعی سطح پر بھی ایسے اداروں کا قیام ضروری ہے۔

صوبائی محتسب کو درپیش مسائل

خواتین کے وراثت میں حقوق کے تحفظ کے لیے صوبائی محتسب رخشندہ ناز نے بتایا کہ اکثر فریقین عدالتوں سے حکم امتناع حاصل کرتے ہیں جبکہ مصروفیات کے باعث کئی مہینوں تک ضلعی انتظامیہ ریکارڈ پیش نہیں کر پاتی جس کے باعث کیسز التواء کا شکار ہیں۔

رخشندہ ناز کا کہنا تھا کہ ان کے پاس عملہ بھی انتہائی کم ہے، یہاں تک کے کوئی مستقل رجسٹرار اور سٹینو ٹائپسٹ ہی نہیں ہے جبکہ کئی کیسز میں جائیداد کا ریکارڈ ہوتا ہی نہیں جس کے لیے جائیداد رجسٹریشن بھی ضروری ہے۔

انہوں نے کہا کہ صوبائی محتسب سے خواتین کو بہت امیدیں ہیں لیکن صوبائی محتسب کو خود کئی مشکلات کا سامنا ہے جو کوئی حل نہیں کررہا ہے۔ رخشندہ ناز نے مطالبہ کیا کہ صوبائی محتسب کے مؤثر کردار کے لیے نہ صرف عملے میں اضافہ کیا جائے بلکہ ڈویژنل سطح پر بھی دفاتر قائم کئے جائیں۔

خیبرپختونخوا حکومت کا رکاوٹ ڈالنے والوں کے خلاف فوجداری مقدمات کا فیصلہ

خیبرپختونخوا کے نگران وزیر قانون جسٹس (ر) سید ارشد حسین نے آج نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ وراثت سمیت جائیداد سے متعلق تمام مقدمات فوجداری مقدمات کا سبب بھی بن رہے ہیں اس لیے صوبائی حکومت جائیداد سے متعلق مقدمات کا خاتمے کے لیے سنجیدہ ہے ۔

انہوں نے کہا کہ حکومت تمام جائیدادوں کو ڈیجیٹلائز کررہی ہے۔ صوبائی محتسب کو مزید موثر بنانے کے لیے نہ صرف درکار عملہ فراہم کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے بلکہ حکومت نے فیصلہ کیا ہے کیسز میں ریکارڈ پیش نہ کرنیوالے یا کوئی اور رکاوٹ بننے پر پٹواری یا کوئی بھی متعلقہ اہلکار یا آفیسر کے خلاف فوجداری قانون کے تحت کارروائی شروع ہوگی۔

وزیر قانون نے بتایا کہ عدالتوں پر مقدمات کا بوجھ کم کرنے کے لئے خیبرپختونخوا الٹرنیٹ ڈسپیوٹ ریزولوشن(اے ڈی آر) ایکٹ 2020 پر بھی موثر عملدرآمد کے لیے اقدامات اٹھائے جارہے ہیں جس کے تحت فریقین باہمی رضامندی سے عدالتوں سے باہر معاملات کو ختم کرسکتے ہیں۔

جسٹس (ر) ارشد حسین کا مزید کہنا تھا کہ پبلک سروس کمیشن کے ذریعے مشکل طریقہ کار کے باعث سول ججز کی تعیناتی میں تاخیر کا سامنا ہے جس کو حل کرنے کے لئے مختلف آمور زیر غور ہیں جبکہ اس سلسلے میں چیف جسٹس پشاور ہائیکورٹ اور چیف جسٹس آف پاکستان سے ملاقات طے ہے اور ان سے ملاقات کے بعد حتمی فیصلہ ممکن ہوگا۔

خیبر پختونخوا