Aaj News

جمعہ, نومبر 22, 2024  
19 Jumada Al-Awwal 1446  

کیا عمار فاروق کی موت واقعی صدمے سے ہوئی، میڈیکل سائنس کیا کہتی ہے

.پی ٹی آئی رہنما کے بیٹے کے انتقال سے متعلق سوشل میڈیا پرمتضاد دعوے، حقیقت کیا ہے
شائع 21 ستمبر 2023 01:08pm
بیٹا عمارفاروق ، والد عباد فاروق
بیٹا عمارفاروق ، والد عباد فاروق

نو مئی کے واقعات میں پی ٹی آئی کےگرفتار کارکن اورایم پی اے کے لیے ٹکٹ ہولڈرعباد فاروق کے 8 سالہ بیٹے عمارفاروق کے انتقال کے بعد سوشل میڈیا پر وائرل ویڈیوز دیکھ کر سبھی افسردہ ہیں، اس حوالے سے پی ڈی ایم حکومت کو آڑے ہاتھوں لیتے ہوئے شدید تنقید کا نشانہ بھی بنایا گیا تاہم بچے کیموت کی وجوہات اور مرض کے حوالے سے متضاد دعوے سامنے آئے۔

عباد فاروق کے بھائی چوہدری تصورنے برطانوی نشریاتی ادارے کو بتایا کہ ان کا بھتیجا والد، والدہ اوردادای کی گرفتاری کے بعد ذہنی صدمے اوردکھ کے باعث بیمارہوکر ابدی نیند سو گی۔ فیملی کے مطابق 8 سالہ بچہغیرمعمولی دماغی بیماری ’سیباکیوٹ سیکلورزنگ پیننسیفلائٹس‘ (ایس ایس پی ای) میں مبتلا تھا۔

فیملی اورپی ٹی آئی حامیوں کی بڑی تعداد نے سوشل میڈیا پر عمار کو پہنچے والے ذہنی صدمے کو موت کی وجہ قرار دیا۔ لیکن یہ جاننا ضروری ہے کہ یباکیوٹ سیکلورزنگ پیننسیفلائٹس مرض کیاہے، آیا یہ واقعی دکھ، جدائی کے احساس یا نفسیاتی صدمے سے کسی کی موت کا سبب بن سکتاہے اور اس کاعلاج ممکن ہے یا نہیں۔

سیباکیوٹ سیکلورزنگ پیننسیفلائٹس کیا ہے؟

امریکآ کے نیشنل انسٹیٹیوٹ آف نیورولوجیکل ڈیزیز اینڈ سٹروک کے مطابق(ایس ایس پی ای) بچوں اور نوجوانوں میں ہونے والا دماغی مرض ہے۔یہ خسرہ کا وائرل انفیکشن ہے جو دماغ کے ساتھ ساتھ مریض کے مرکزی اعصابی نظام (سی این ایس) کو متاثر کرتا ہے۔

اس غیرمعمولی بیماری میں مبتلا زیادہ تربچوں میں ابتدائی عمر، عام طور پر پیدائش سے لے کردو سال تک کی عمر کے دوران خسرہ ہونے کی ہسٹری ہوتی ہے۔وائرس جسم میں موجود رہتا ہے اور6 سے 12 سال کی عمر کے دوران متحرک ہو کردماغ اورسینٹرل نروس سسٹم ( سی این ایس) کو متاثرکرتا ہے۔

ایس ایس پی ای کی ابتدائی علامات واضح ہیں اور ان میں درج ذیل شامل ہیں:

شعور اور ادراک کی کمی ہونا (جیسے یاداشت کی کمی)

رویے میں تبدیلیاں ( چڑچڑاپن وغیرہ )

انسانی دماغ کے موٹر فنکشن میں خلل جس میں سر یا اعضا کی بے قابو حرکتیں شامل ہوتی ہیں جنھیں مائیوکلونک جرکس کہتے ہیں۔

دورے پڑ سکتے ہیں۔

کچھ لوگ اندھے ہو سکتے ہیں۔

بیماری کے شدید درجے کے مراحل میں، پٹھے اکڑ جانے کے باعث چلنے کی صلاحیت ختم ہوسکتی ہے۔

غشی کے دوروں کی حالت میں آہستہ آہستہ بگاڑپیدا ہوتا ہے۔

بچاؤ کیسے ممکن ہے؟

کیسے بچا سکتا ہے؟

تاحال یہ مرض لاعلاج ہے، عام طور پر بخار، دل بند ہونے، یا خود مختار اعصابی نظام کو کنٹرول کرنے میں دماغ کی ناکامی کے باعث موت واقع ہوجاتی ہے۔

بچاؤ کا واحد علاج خسرہ کی ویکسنیشن ہے تاہم طبی ماہرین کے مطابق ویکسین کے باوجود بھی یہ مرض ہو سکتا ہے۔

ایس ایس پی ای کی تشخیص کے عموماً ایک سے تین سال کے اندر موت ہوجاتی ہے۔

کچھ معاملوں میں مرض کے تیزی سے بگڑنے میں 3 ماہ کے اندر بھی موت ہو سکتی ہے ، اس مرض سے صحتیابی کا تناسب بہت ہی کم ہے۔

دماغی و اعصابی امراض کے ماہرڈاکٹرراؤ سہیل یاسین خان نے بی بی سی کو بتایا کہ ایس ایس پی ای ببنیادی طور پرخسرہ کے وائرل انفکیشن سے ہوتی ہے۔ جو خصوصاً چھ سے 12 سال تک کے ایسے بچوں کے جسم میں غیر متحرک طور پر موجود ہوتا ہے، جنھیں پیدائش کے بعد 2 سال کے عرصے کے دوران خسرہ ہوا ہو۔ یہ وائرس دوبارہ متحرک ہو کر انسانی دماغ کے خلیوں کو متاثر کرتا ہے۔

ڈاکٹرراؤ کے مطابق علامات میں بچے کے رویے میں تبدیلیاں، یادداشت کی کمی اور جسم میں غیرارادی طور پرجھٹکے لگنا یا مرگی جیسے دورے پڑنا شامل ہوتے ہیں۔ یہ انسان کے مرکزی اعصابی نظام ( سی این ایس) اور انسانی جسم میں دوڑنے والے کرنٹ کو متاثر کرتا ہے۔ جس سے مریض ذہنی طور پر مفلوج ہونا شروع ہو جاتے ہیں۔

انہوں نے بتایا کہ مرض میں شدت آنے کے ساتھ ساتھ مریض مفلوج ہونا شروع ہوجاتا ہے، کھانا پینا بند کردیتا ہے اور پٹھے اکڑ جاتے ہیں۔اس کا اب تک کوئی علاج دریافت نہیں کیا گیا تاہم تشخیص کے لیے ریڑھ کی ہڈی سے پانی نکال کر ٹیسٹ کرنا، ایم آئی آر ٹیسٹ اور پی سی آر ٹیسٹ کیا جاتا ہے۔ اسی طرح دماغ میں دوڑنے والے کرنٹ کے ای ای جی ٹیسٹ سے تشخیص کی جاسکتی ہے۔

انھوں نے بتایا کہ اگر بچے کو پیدائش کے وقت خسرہ کی ویکسین لگوا دی جائے تو اس مرض کے ہونے کے امکانات بہت کم ہوتے ہیں تاہم اگر جسم میں موجود وائرس کسی اور وائرس کے ساتھ مل کر نئی قسم اختیار کرلے تو بچہ اس مرض کا شکارہو سکتا ہے۔

ڈاکٹر راؤ سہیل کا کہنا تھا کہ ایسا ممکن نہیں کہ کوئی صحت مند بچہ اچانک اس مرض کا شکار ہوجائے۔بچے کو ایک دم شدید علامات ظاہر نہیں ہوتیں بلکہ آہستہ آہستہ پہلے چڑچڑاپن، بھوک کم ہونا یا یادداشت کی کمی ہوتی ہے، جس کے بعد جسم میں جھٹکے لگنے شروع ہوتے ہیں۔

اگراس مرض میں مبتلا کسی بچے کو ذہنی دباؤ یا صدمے سے گزرنا پڑے یا کسی شدید دکھ کے باعث اس بیماری میں شدت آ سکتی ہے؟ اس سوال کے جواب میں ڈاکٹرراؤ سہیل کا کہنا تھا کہ سائنسی و طبی طور پر واضح ہے کہ یہ مرض نہ کسی صدمے و دکھ کی وجہ سے ہوتا ہے اور نہ ہی کسی صدمے یا ذہنی تناؤ سے علامات میں شدت آتی ہے۔

ڈاکٹر کے مطابق اس قسم کے مرض کا شکار بچوں کو اپنے ارد گرد کے ماحول کا زیادہ اداراک نہیں ہوتا۔

کیا کوئی انسان دکھ، جدائی یا صدمے سے فوت ہوسکتا ہے

عمار کے اہلخانہ کا دعویٰ ہے کہ بچے کا انتقال ہےگرفتار والد کی جدائی کے دکھ اور صدمے سے ہوا لیکن کیا ایسا ممکن ہے؟

ماہر نفسیات ڈاکٹر معصومہ اعجازنے بی بی سی کو بتایا کہعام اور سادہ الفاظ میں جواب دیا جائے تو ایسا ممکن نہیں لیکن ہر معاملے میں یہ صورتحال مختلف ہو سکتی ہے۔

انہوں نے کہا کہ ،۔’اگر کوئی کسی شدید مرض کا شکار ہے اور سے کسی دکھ، یا جدائی کی کیفیت کے احساس کا سامنا کرنا پڑتا ہے تو انتقال تو نہیں ہو سکتا لیکن طبی مرض کی علامات میں معمولی اضافہ ہو سکتا ہے‘۔

ڈاکٹر معصومہ کے مطابق نفسیات کی سائنس کے مطابق اگرکسی کو طویل عرصے تک دکھ یا غم کی کیفیت کا سامنا رہتا ہے تو اس کی جسمانی صحت پر اثرات تو مرتب ہوسکتے ہیں لیکن موت واقع نہیں ہو سکتی۔

وضاحت کرتے ہوئے انہوں نے مزید کہا کہ ،’ نفسیاتی اثرات یا ذہنی تناؤ، بلند فشارخون، ذیابیطس جیسے امراض کی وجہ بن سکتے ہیں اور ان کے باعث کوئی جسمانی عارضہ ہو سکتا ہے لیکن یہ براہ راست کسی کی موت کی وجہ نہیں بن سکتے۔کسی بچے کو پہلے سے ہی کوئی عارضہ لاحق ہو خصوصاً اعصابی یا دماغی تو ایسی صورت میں کوئی صدمہ، دکھ یا جدائی کی کیفیت کا احساس اس کی موت کی اس وقت تک وجہ نہیں بن سکتا جب تک جسمانی عارضہ نہ بگڑے’

ان کا کہنا تھا کہ کوئی بڑا ہو یا بچہ، وہ چڑچرے پن، غصہ، جوش، کم نیند، کھانے پینے میں کمی، تشدد، سماجی تنہائی کا شکار ہو سکتا ہے جس سے اس کی جسمانی صحت متاثر ہوتی ہے لیکن اس سے فوری طور پر کسی کی موت نہیں ہو سکتی۔

بچے کے اہلخانہ کیا کہتے ہیں

سوشل میڈیا پرعمار فاروق کے اہلخانہ سے منسوب مختلف دعوے اورالزامات سامنے آئے۔ کسی کا دعویٰ ہے کہ عمار کو مرض پہلے سے لاحق تھا مگر شدت والد کی جدائی کے دوران آئی تو کسی کا کہنا ہے کہ بچہ بالکل صحت مند تھا اور اسے یہ مرضوالد کی جدائی کے باعث لگا۔ وہ والد کی جیل سے واپسی کا انتظار کرتے کرتے ابدی نیند سو گیا۔

بی بی سی نے عمار کے اہلخانہ سے جاننے کی کوشش کی کہ اُس کی طبیعت کب خراب ہوئی تاہم ان کے مؤقف میں بھی تضاد پایا گیا۔

چند ہفتے قبل اہلخانہ نے برطانوی نشریاتی ادارے کو بتایا تھا کہ طبیعت کافی عرصے سے خراب تھی۔ عمار کو پہلے جسمانی توازن قائم رکھنے میں مشکلات کا سامنا تھا، پھر وقت گزرنے کے ساتھ ساتھجسم اکڑنے لگا اور س نے کھانا پینا چھوڑ دیا تھا۔ بچے کو اونچی آوازاورشور سے خوف یا تکلیف ہوتی تھی۔

اُس وقت فیملی کا کہنا تھا کہ ایسی حالت میں والدہ ہی عمار کی دیکھ بھال کرتی تھی۔

تاہم اب عمار کے تایا چوہدری تصور نے بی بی سی کو بتایا کہ انہیں یاد نہیں پڑتا کہ عمار کبھی بچپن میں بیمار پڑا ہو، یا اسے خسرہ ہوا ہو۔ انہوں نے کہا کہ عمار والد کی گرفتاری سے قبل بالکل صحت مند تھا۔ وہ والد کی گرفتاری اور پھر دادی اور والدہ کو گرفتار کیے جانے پر ڈپریشن اور ذہنی تناؤ کا شکار ہوا۔ اس سے قبل وہ بالکل صحت مند تھا لیکن پھر اسکول سے اس کے رویے میں تبدیلی اور طبیعت خراب ہونے کی کال موصول ہوئی تھی۔

عمار کے تایا کے مطابق ہم سمجھے کہ بچہ پریشان ہے لیکن پھر ایک دن وہ اپنا اسکول بیگ بھول آیا اور دوسرے دن اپنی قمیض اتارکراسکول چھوڑ آیا تھا۔اس کے بعد ہم ن مسئلے کو سنجیدہ لیا اور ڈاکٹر کے پاس لے گئے جنہوں نےکہا کہ بچے نے کوئی ذہنی دباؤ لیا ہے جس سے اس کا دماغ متاثر ہوا اور رگیں سکڑ گئی ہیں۔

انہوں نے کہا کہ اس دن کے بعد سے عمارصحتیاب نہ ہو سکا اور دن بدن اس کی صحت خراب ہوتی گئی۔ اسے پہلے جسمانی جھٹکے لگنے شروع ہوئے، پھر جسم کے پٹھے اکڑ گئے اور اس نے بولنا بھی بند کردیا۔

عمار کے معالج کی جانب سے بتائی گئیں وجوہات کا ذکر کرتے ہوئے چوہدری تصور نے کہا کہماہر دماغی امراض ڈاکٹر ٹیپو سلطان نے عمار کا معائنہ کر کے بتایا تھا کہ پیدائش سے دو سال کی عمر کے دوران عمار کو خسرہ ہوا ہو گا جس کی وجہ سے وہ ایس ایس پی ای مرض کا شکار ہوا۔

تاہم عمار کے تایا کا مزید کہنا تھا کہ، ’ہم سمجھتے ہیں کہ جس طرح پنجاب پولیس نے گھرپرچھاپے مارے اورعمار کے والد، والدہ اوردادی کو گرفتارکیا اس سے بچے کے ذہن پر اثر ہوا اورطبیعت بگڑی‘۔

Pakistan Tehreek Insaf