برطانیہ، امریکہ اور آسٹریلیا سے بھی بھارت کے تعلقات بگڑنے کا امکان
کینیڈا میں سکھ رہنما ہردیپ سنگھ کے قتل کے معاملے پر بھارت کے صرف کینیڈا ہی نہیں بلکہ امریکہ، برطانیہ اور آسٹریلیا سے بھی تعلقات خراب ہونے کا امکان ہے۔
کینیڈین وزیر اعظم جسٹس ٹروڈو نے پیر کو جب ہردیپ سنگھ کے قتل میں بھارت کے ملوث ہونے کی بات کی تو انہوں نے یہ بھی بتایا کہ کینیڈا نے یہ معاملہ اپنے اتحادی ممالک امریکہ اور برطانیہ کے ساتھ بھی یہ معاملہ اٹھایا ہے۔
جسٹن ٹروڈو نے کہا کہ انہوں نے امریکی صدر جو بائیڈن اور برطانوی وزیر اعظم رشی سونک سے بات کی ہے۔
برطانوی حکومت کے ایک ترجمان نے منگل کو کہا کہ کینیڈین وزیراعظم کے الزامات سنگین ہیں اور برطانیہ اس معاملے پر کینیڈا سے رابطے میں ہے۔
ترجمان نے کہا کہ کینیڈین حکومت کی جانب سے مزید تحقیقات کے بعد ہی اس معاملے پر کوئی تبصرہ کیا جاسکے گا۔
بی بی سی کے مذہبی امور کے ایڈیٹر علیم مقبول کے مطابق جسٹن ٹروڈو کے الزمات کا ایک پس منظر ہے۔ بھارت نے سکھوں کے حوالے سے کینیڈا، آسٹریلیا اور برطانیہ پر دباؤ ڈالنے کی کوشش کی تھی۔ ان تینوں ممالک میں سکھوں کی خاصی آبادی ہے۔
مقبول کے مطابق آسٹریلیا نے اس پر جواب دیا کہ وہ اپنی سرزمین پر ہندو مندروں کی بے حرمتی کے معاملے کا جائزہ لے گا، لیکن سکھوں کو خالصتان کے معاملے پر اپنی رائے کے اظہار سے نہیں روکے گا۔
بھارت سکھوں کی جانب سے اپنے آزاد وطن کے مطالبے کو ”سکھ انتہا پسندی“ قرار دیتا ہے۔
بھارتی میڈیا نے گذشتہ دنوں دعویٰ کیا تھا کہ رشی سوناک نے سکھوں کے معاملے پر مودی کو تعاون کی یقین دہانی کرا دی ہے تاہم نئی صورتحال سامنے آنے کے بعد کیا ہوگا یہ ابھی واضح نہیں۔
جو بائیڈن اور جسٹس ٹروڈو قریبی اتحادی ہیں۔
بھارت کے خلاف جسٹسن ٹروڈو کے بیان میں سب سے سخت بات یہ ہے کہ انہوں نے اپنی سرزمین پر ایک کینیڈین شہری کے قتل کو ملکی خودمختاری کی خلاف ورزی قرار دیا ہے۔
بھارتی خفیہ ایجنسی را کی جانب سے مغربی ممالک میں سکھ رہنماؤں کی قتل کے معاملے کو دیگر ممالک بھی اپنی خود مختاری کے خلاف سمجھ سکتے ہیں کیونکہ بیشتر رہنما ان ممالک کے شہری ہیں۔
Comments are closed on this story.