Aaj News

جمعہ, نومبر 22, 2024  
19 Jumada Al-Awwal 1446  

آپ اپنے لیے مشکلات پیدا کر رہے ہیں، چیف جسٹس کا خواجہ طارق رحیم سے مکالمہ

اگر میں کیس کو نہیں لگاتا میری مرضی، تو پھر کیا ہوگا، جسٹس فائز عیسیٰ کا وکیل سے مکالمہ
اپ ڈیٹ 18 ستمبر 2023 07:04pm

سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کے خلاف درخواستوں کی سماعت کے دوران چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے وکیل خواجہ طارق رحیم سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ آپ کی درخواست 10سال نہ لگاؤں توآپ کیا کریں گے، اگر میں کیس کو نہیں لگاتا میری مرضی تو پھر کیا ہوگا۔

سپریم کورٹ میں جاری پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کے خلاف درخواستوں کی سماعت کے دوران چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے درخواست گزار کے وکیل خواجہ طارق رحیم سے مکالمہ کرتے ہوئے ریمارکس دیئے کہ ذرا غور سے سنیے، ہم نہیں چاہتے کہ آپ فی البدیہہ کوئی جواب دے دیں جو پھر آپ کے لیے مشکل ہو، اس لیے ہم آپ کو کہہ رہے ہیں کہ ہر سوال نوٹ کرلیجئے اور آرام سے جواب دے دیں۔ آپ خود اپنے لیے مشکلات کھڑی کررہے ہیں۔

چیف جسٹس نے کہا کہ ہم ادھر آپ سے بحث کرنے نہیں بیٹھے ہیں۔ ہم آپ کو سننے بیٹھے ہیں، یہ بہت فرق ہوتا ہے یہ کہنے کے لیے کہ مجھے یہ قانون پسند نہیں ہے، بہت سے قانون مجھے بھی شاید ذاتی طور پر پسند نہ ہوں مگر میں نے قانون و آئین پر عملدرآمد کا حلف اٹھایا ہے۔

چیف جسٹس نے خواجہ طارق رحیم سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ آپ باربار ”میں“ کا لفظ کیوں استعمال کر رہے، آپ درخواست گزار ہیں اور دیگر لوگ بھی اس کیس میں فریق ہیں، کیا آپ کا اس کیس میں کوئی ذاتی مفاد ہے، خواجہ صاحب اس کیس میں عدلیہ سے جڑا کون سا عوامی مفاد ہے، آپ نے کہا ، ’میری ذاتی رائے میں‘ تو میری ذاتی رائے اہمیت نہیں رکھتی تو آپ کی ذاتی رائے کی کوئی اہمیت نہیں ہے۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ آپ نے آئین کے آرٹیکل کا ایک بھی حوالہ نہیں دیا کہ یہ کس آرٹیکل کے تصادم میں ہے، دوسری بات جو آپ نے بالکل نظرانداز کررکھی ہے کہ یہ ہم نے ازخود نوٹس نہیں لیا، اگر ہمارے حقوق پر پارلیمنٹ نے اتنا زبردست وار کیا ہوتا تو بہت سے کیسز تو ہم نے خود بھی اٹھا لیے، یہ تو آپ ایک طرح سے ہمارے ڈیفینڈر کے طور پر رونما ہوئے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ ، ’اس میں اس میں کسی کی رائے چھینی نہیں جارہی ہے تو براہ کرام آرٹیکل 184 کے دائرے میں رہ کر بات کریں جس کا آپ نے ایک لفظ نہیں کہا ہے، وہ کہتا ہے کہ عوامی اہمیت کا کوئی بھی معاملہ۔ اس میں بنیادی حقوق کا تذکرہ کیا گیاہے جس کو آپ نے نظرانداز کردیا ہے‘۔

مزید پڑھیں

وفاقی حکومت کی پریکٹس اینڈ پروسیجرایکٹ کے خلاف دائر درخواستیں مسترد کرنے کی استدعا

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ یہ اچھی بات ہے کہ آپ میرے حقوق کی جنگ لڑ رہے ہیں لیکن یہ میرے اور آپ کے حقوق کی نہیں یہ آئین کی بات ہے اور لوگوں کے حقوق کی بات ہے۔ آپ چیف جسٹس کو کسی کے سامنے جوابدہ نہیں بنانا چاہتے، ہم اس قانون سے بھی پہلے اوپر والے کو جواب دہ ہیں، آئین سپریم کورٹ سے نہیں، اللہ کے نام سے شروع ہوتا ہے، مجھے بطور چیف جسٹس آپ زیادہ مضبوط کرنا چاہتے ہیں، لیکن اگر میں کیس کو نہیں لگاتا میری مرضی تو پھر کیا ہوگا، میں آپ کی درخواست 10سال نہ لگاؤں توآپ کیا کریں گے۔

چیف جسٹس نے خواجہ طارق رحیم سے مزید کہا کہ آپ اپنی رائے پر کالم لکھیے اخبارمیں، ہم سے صرف اور صرف آئینی بحث کیجئے کہ ہم 184 تھری کا جو پاور استعمال کررہے ہیں یہ ہم اپیلٹ ہاور استعمال ن ہیں نہ ہی ہائیکورٹ نے کوئی فیصلہ کیا ہےجس کی ہم اپیل میں بیٹھے ہیں۔

اس دوران خواجہ طارق رحیم کی جانب سے پھر مداخلت کی کوشش پر چیف جسٹس نے کہا کہ براہ کرم آپ ہربات کو نوٹ کیجئے، آپ ہر چیز کا جواب دینے لگتے ہیں، مسلسل سوالات سے ہم آپ کی زندگی مشکل اور ناممکن بنا رہے ہیں، ہمارے سو سوالات میں اصل مدعا تو گم ہوجائے گا۔ آپ چاہیں تو ہمیں سوالات کے تحریری جوابات دے سکتے ہیں۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ خواجہ صاحب اپنے کسی معاون کو کہیں کہ سوالات نوٹ کریں، آپ کو فوری طور پر جواب دینے کی ضرورت نہیں، اپنے دلائل کے آخر میں سب سوالات کے جواب دے دیں، آپ بتائیں کہ پورا قانون ہی غلط تھا یا چند شقیں، آپ آئینی شقوں کو صرف پڑھیں تشریح نہ کریں، خواجہ صاحب آپ جو ادھرادھر کی باتیں کررہے ہیں اس پرالگ درخواست لے آئیں، ابھی اپنی موجودہ درخواست پر فوکس کریں۔

Justice Qazi Faez Isa

Supreme Court Review of Judgements and Orders Act 2023

Chief justice Faez Isa