رانی پور ملازمہ کیس: درگاہ غوثیہ کے گدی نشین پیر کا بھائی زیر حراست
رانی پور میں بااثر پیر کے گھر جاں بحق ہونے والی 10 سالہ گھریلو ملازمہ فاطمہ کی والد نے بیان دیا ہے کہ مجھےانصاف چاہیے ورنہ خود سوزی کرلوں گی۔ دوسری طرف پولیس نے درگاہ غوثیہ کے گدی نشین پیر کے بھائی کو حراست میں لے لیا ہے۔
گھریلو ملازمہ فاطمہ کو مبینہ تشدد کے بعد قتل کرنے کے کیس میں اہم پیشرفت سامنے آئی ہے۔
پولیس ذرائع کا کہنا ہے کہ درگاہ غوثیہ کے گدی نشین پیر سید سورج شاہ جیلانی کے بھائی شاہ زیب شاہ کو پولیس نے حراست میں لے لیا ہے۔
ذرائع نے مزید بتایا کہ شاہ زیب شاہ کو حنا شاہ اور فیاض شاہ سے متعلق معلومات کیلیے حراست میں لیا گیا۔
پولیس ذرائع کے مطابق حراست میں لینے کے بعد شاہ زیب شاہ کو نامعلوم جگہ منتقل کردیا گیا ہے۔
اس سے قبل بااثر پیر کی حویلی میں جاں بحق ہونے والی گھریلو ملازمہ فاطمہ فرڑو کی والدہ شمیم فرڑو نے ویڈیو بیان میں کہا ہے کہ پولیس حنا شاہ اور فیاض شاہ کو اب تک گرفتار نہ کرسکی یہ پولیس کی نااہلی ہے۔
فاطمہ کی والدہ کا کہنا ہے کہ ملزم اسد شاہ کو پولیس نے ایئرکنڈیشن میں رکھا ہوا ہے، اور اس کے موبائل فون کا پن کوڈ بھی نہیں لیا جاسکا، مجھے انصاف چاہیے ورنہ خود سوزی کرلوں گی، اپنی بیٹی کا خون رائیگاں نہیں جانےدوں گی۔
دوسری طرف ڈی آئی جی سکھر اور ایس ایس پی خیرپور، گاؤں خان واہن پہنچے اور فاطمہ فرڑو کے والدین سے ملاقات کی۔
اس موقع پر ڈی آئی جی سکھر نے کہا کہ کوئی کتنا ہی طاقتور کیوں نہ ہو قانون کے کٹہرے میں لایا جائےگا۔
ایس ایس پی خیرپور نے کہا کہ فاطمہ فرڑو قتل کیس میں دیگرملزمان کو جلد گرفتار کیا جائے گا، متاثرہ خاندان کے ساتھ انصاف ہوگا۔
واضح رہے کہ رانی پور میں بااثر پیر کے گھر جنسی زیادتی اور تشدد سے جاں بحق ہونے والی 10 سالہ فاطمہ کے قتل کیس کی تحقیقات جاری ہیں، اور گزشتہ روز ڈی آئی جی سکھر نے کیس کے انویسٹی گیشن آفیسر کو تبدیل کردیا تھا۔
ڈی آئی جی سکھر کے حکم پر فاطمہ کیس کے آئی او بچل قاضی کو ہٹا کر ڈی ایس پی صفی اللہ سولنگی کو آئی او مقرر کردیا گیا ہے۔
مزید پڑھیں: رانی پور: بچی سے زیادتی کی تصدیق، انفارميشن لیک ہونے پر حویلی کے مکین فرار
واقعے کا پس منظر
16 اگست کو خیرپور میں واقعہ پیش آیا، جہاں بااثر پیر کی حویلی میں 10 سالہ بچی فاطمہ پراسرار طور پر جاں بحق ہوگئی، ”آج نیوز“ نے رانی پور میں ہونے والے اس دلسوز واقعے کی خبر سب سے پہلے دی تھی اور خبر نشر ہونے کے بعد انتطامیہ حرکت میں آئی اور واقعے میں ملوث ملزمان کی گرفتاریاں شروع ہوگئیں، جب کہ متوفی بچی کے والدین کے بیانات کی روشنی میں مقدمہ بھی درج کرلیا گیا۔
بچی کی لاش کی ویڈیو سوشل میڈیا پر وائرل ہوئی تھی جس میں بچی کے جسم پر تشدد کے نشانات واضح تھے۔ تاہم بچی کو پوسٹ مارٹم کے بغیر ہی دفن کردیا گیا، اور پولیس نے جاں بحق بچی کا میڈیکل اور پوسٹ مارٹم کروائے بغیر ہی کیس داخل دفتر کردیا۔
واقعے کا مرکزی ملزم اسد شاہ کو 4 روزہ جسمانی ریمانڈ پر پولیس کے حوالے کردیا گیا، اور پولیس کی درخواست پرعدالت کی جانب سے بچی کی قبر کشائی کی اجازت دی گئی تھی۔
Comments are closed on this story.