نگران حکومت الیکشن میں رکاوٹ نہیں بنے گی، اعلان جلد ہوگا، انوارالحق کاکڑ
نگراں وزیرِ اعظم انوارالحق کاکڑ کا کہنا ہے کہ امن و امان اور سرحدی صورتِ حال کے باعث عام انتخابات التوا کا شکار نہیں ہوں گے، انہوں نے کہا کہ پاکستان کو اگرچہ مغربی اور مشرقی محاذ پر خطرات کا سامنا ہے لیکن یقین ہے کہ بیک وقت سرحدی خطرات پر بھی قابو پائیں گے اور انتخابی عمل بھی بلا رکاوٹ مکمل کرائیں گے۔
نگراں وزیراعظم انوار الحق کاکڑ کا کہنا ہے کہ پاکستان کی جانب سے افغانستان میں طالبان کی حکومت کو تسلیم کرنے کی کوئی تجویز زیر غور نہیں، کیونکہ کابل کا نظامِ حکومت طالبان کے پاس ہے تو ریاستی امور کے سلسلے میں ان سے ہی بات کرنی ہوگی۔
امریکی خبر رساں ادارے ”وائس آف امریکہ“ سے گفتگو کرتے ہوئے نگراں وزیراعظم انوار الحق کاکڑ نے کہا کہ انتخابی عمل الیکشن کمیشن کا مینڈیٹ ہے اور نگراں حکومت انتخابات میں التواء کے لیے کوئی جواز سامنے نہیں لائے گی۔ البتہ حکومت کا کام انتخابات کے لیے الیکشن کمیشن کی معاونت کرنا ہے جس کے لیے مکمل تیار ہیں۔
انوار الحق کاکڑ نے اس تاثر کی تردید کی کہ نگراں حکومت انتخابات کی تیاری کے عمل میں اقدامات نہیں لے رہی۔
ایک سوال کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ پاکستان کی مشرقی اور مغربی سرحدوں پر سیکیورٹی خطرات کے بڑھنے سے اس کے مؤثر جواب کے لیے ضروریات بھی بڑھ گئی ہیں تاہم انتخابات کے انعقاد پر اس کے اثرات نہیں ہونے دیں گے۔
طالبان حکومت کو تسلیم کرنے کی کوئی تجویز زیر غور نہیں، نگراں وزیراعظم
نگراں وزیراعظم انوار الحق کاکڑ نے افغانستان میں امریکی اسلحہ چھوڑے جانے کے حوالے سے اپنے بیان کی وضاحت کرتے ہوئے انوار الحق کاکڑ نے کہا کہ یہ تاثر کہ امریکہ کسی سازش کے تحت افغانستان میں اسلحہ چھوڑ کر خطے سے چلا گیا درست نہیں ہے اور نہ ہی ان کے دیے گئے بیان کا یہ مقصد تھا۔
انہوں نے کہا کہ ان کے بیان کا مقصد یہ نشاندہی کرنا تھا کہ امریکی ساختہ چھوٹے جنگی ہتھیار نہ صرف بلیک مارکیٹ میں مشرق وسطیٰ اور وسط ایشیا میں فروخت ہورہے ہیں بلکہ پاکستان کے لیے بھی بڑے چیلنج کے طور پر سامنے آیا ہے۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ ٹی ٹی پی اور دیگر تنظیمیں دہشت گردی کی کارروائیوں میں اس اسلحہ کا استعمال کررہے ہیں جو کہ پاکستان کے لیے اسٹرٹیجکل اور ٹیکٹیکل چیلنج ہے۔
نگراں وزیرِ اعظم نے کہا کہ پاکستان کو افغانستان کے ساتھ ملحقہ سرحد پر سیکیورٹی کے خطرات کا سامنا ہے، دوحہ امن معاہدے میں طالبان نے دنیا کو یقین دہانی کرائی تھی کہ ان کی سرزمین کسی دوسرے کے خلاف دہشت گردی میں استعمال نہیں ہوگی۔
انہوں نے کہا کہ پاکستان کو حق دفاع حاصل ہے اور اپنے لوگوں اور سرزمین کے دفاع کے لیے جہاں سمجھیں گے ضرور ایکشن لیں گے۔
نگراں وزیراعظم نے کہا کہ اس تفصیل میں جائے بغیر کہ کون سے آپریشنل فیصلے پاکستان لے سکتا ہے یہ ضرور کہوں گا کہ جو خطرہ سامنے آئے گا اس کے مطابق فیصلے لیں گے اور عمل سے نظر آ جائے گا کہ ہم کیا کرنا چاہتے ہیں اور کیا کر سکتے ہیں۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ یہ درست نہیں ہے افغان طالبان پاکستان کی بات نہیں سن رہے اور نہ ہی اسلام آباد کابل حکومت کے سامنے بہت مخصوص مطالبات رکھ رہا ہے۔
انہوں نے کہا کہ طالبان اس بات پر قائل ہیں کہ ان کی سرزمین کسی دوسرے ملک کے خلاف دہشت گردی کے لیے استعمال نہیں ہونی چاہیے۔ تاہم وہ کہتے ہیں کہ ایسا کیوں نہیں ہو پا رہا ہے اس حوالے سے پاکستان طالبان سے بات چیت کررہا ہے کہ وہ کیا کردار چاہتا ہے۔
ایک سوال کے جواب میں نگراں وزیراعظم نے کہا کہ افغانستان کے ساتھ پاکستان کی تجارت باقاعدگی سے جاری ہے، البتہ غیر قانونی ٹرانزٹ ٹریڈ اور اسمگلنگ کے خلاف کارروائی ضرور کی جا رہی ہے۔
انہوں نے کہا کہ حالیہ عرصے میں افغانستان کے ساتھ پاکستان کی تجارت میں بہتری آئی ہے اور افغانستان کے راستے وسط ایشیائی ممالک تک تجارت میں بھی بہتری آنے جا رہی ہے۔
ایک اور سوال پر نگراں وزیرِ اعظم کا کہنا تھا کہ پاکستان کے اپنے خطے کے ممالک کے ساتھ تعلقات کے اپنے تقاضے ہیں ساتھ ساتھ مغرب کے ساتھ سات دہائیوں کا جڑا ہوا تاریخی تعلق ہے جس کی نوعیت آئندہ دہائیوں میں بھی برقرار رہے گی۔
انہوں نے کہا کہ دہشت گردی سے نمٹنے کے حوالے سے تمام طاقتوں میں ہم آہنگی پائی جاتی ہے اور اس حوالے سے اسلام آباد اور واشنگٹن میں اشتراک اور مشترکہ نکات پائے جاتے ہیں۔
پاکستان میں انسانی حقوق کی صورتِ حال پر بات کرتے ہوئے انوار الحق کاکڑ نے کہا کہ پاکستان کی صورتِ حال کا کشمیر سے موازنہ کرنا درست نہیں کیوں کہ کشمیر ایک متنازع علاقہ ہے جہاں لاکھوں کی تعداد میں بھارتی افواج آزادی کی تحریک کو دبا رہے ہیں جب کہ پاکستان ایک تسلیم شدہ آزاد ریاست ہے جسے اپنے قوانین بنانے کا حق حاصل ہے۔
Comments are closed on this story.