نیب آرڈیننس میں کون کون سی ترامیم کی گئی تھیں؟
نیب کے قانون میں 27 ترامیم سے متعلق بل گذشتہ قومی اسمبلی اور سینیٹ سے مئی 2022 میں منظور کیا گیا تھا تاہم صدر عارف علوی نے اس بل پر دستخط کرنے سے انکار کر دیا تھا جس کے بعد پی ڈی ایم کی حکومت نے جون 2022 قومی اسمبلی اور سینیٹ کا مشترکہ اجلاس بلا کر اس کی منظوری دی تھی۔
قومی اسمبلی اور سینیٹ سے منظور ہونے والے نیب ترمیمی بل 2022 کے تحت بہت سے معاملات کو نیب کے دائرہ اختیار سے نکال دیا گیا تھا اور یہ بھی کہا گیا تھا کہ ان ترامیم کو قومی احتساب آرڈیننس 1999 کے آغاز سے نافذ سمجھا جائے گا۔
نیب ترمیمی بل 2022 کے تحت قومی احتساب بیورو (نیب) 50 کروڑ روپے سے کم کے کرپشن کیسز کی تحقیقات نہیں کرسکے گا۔
نیب ترمیمی بل کے تحت احتساب عدالت کے ججوں کی تقرری سے متعلق صدر کا اختیار بھی واپس لے کر وفاقی حکومت کو دے دیا گیا تھا جبکہ پراسیکیوٹر جنرل نیب کی مدت ملازمت میں 3 سالہ توسیع کی جا سکتی تھیی۔
نیب قانون کے سیکشن 16 میں بھی ترمیم کی گئی تھی جس کے تحت جہاں جرم کا اتکاب ہوگا اسی علاقے کی احتساب عدالت میں مقدمہ چل سکے گا۔
بل میں سیکشن 19 ای میں بھی ترمیم کی گئی تھی، جس کے تحت نیب کو ہائی کورٹ کی مدد سے نگرانی کی اجازت دینے کا اختیار واپس لے لیا گیا۔
قانون کی منظوری کے بعد نیب وفاقی، صوبائی یا مقامی ٹیکس کے معاملات پر کارروائی نہیں کر سکتا تھا اور ملک میں کام کرنے والے ریگولیٹری اداروں کو بھی نیب کے دائرہ کار سے باہر نکال دیا گیا تھا۔
نیب ترمیمی بل کے تحت ملزمان کے خلاف تحقیقات کے لیے دیگر کسی سرکاری ایجنسی سے مدد نہیں لی جا سکے گی، جبکہ ملزم کو اس کے خلاف الزامات سے آگاہ کیا جائے گا تاکہ وہ عدالت میں اپنا دفاع کر سکیں۔
نیب آرڈیننس میں یہ بھی ترمیم کی گئی تھی کہ نیب کسی بھی ملزم کا زیادہ سے زیادہ 14 دن کا ریمانڈ لے سکتا ہے تاہم بعد ازاں اس میں مزید ترمیم کرتے ہوئے اس مدت کو 30 دن تک بڑھا دیا گیا تھا۔
مزید پڑھیں: صدر مملکت نے نیب ترمیمی بل 2023 نظرثانی کیلئے دوبارہ پارلیمنٹ بھجوا دیا
نیب ترمیمی بل 2022 کے تحت احتساب عدالتوں کے ججز کی تقرری کا اختیار وفاقی حکومت کے پاس ہوگا، چیئرمین نیب فرد جرم عائد ہونے سے قبل ریفرنس ختم کرنے کی تجویز کر سکیں گے۔
مزید پڑھیں: 50 کروڑ روپے سے کم کرپشن کیسزکی تحقیقات نہیں ہوگی، ترمیمی بل منظور
قانون میں جو اہم ترمیم کی گئی اس میں کہا گیا تھا کہ نیب دھوکا دہی کے کسی مقدمے کی تحقیقات تبھی کر سکتا ہے جب متاثرین کی تعداد 100سے زیادہ ہو۔ اس آرڈیننس کے تحت افراد یا لین دین سے متعلق زیر التوا تمام پوچھ گچھ، تحقیقات، ٹرائلز یا کارروائیاں متعلقہ قوانین کے تحت متعلقہ حکام، محکموں اور عدالتوں کو منتقل کی جائیں گی۔
مزید پڑھیں: نیب ترامیم سے کن افراد نے فائدہ اٹھایا
ان ترامیم کے بعد چیئرمین نیب اور بیورو کے پراسیکیوٹر جنرل کی مدت ملازمت میں بھی ایک برس کی کمی کر کے اسے 3 سال کر دیا گیا تھا اور یہ بھی کہا گیا تھا کہ نیب کا ڈپٹی چیئرمین، چیئرمین کی مدت ملازمت پوری ہونے کے بعد بیورو کا قائم مقام چیئرمین بنے گا۔
Comments are closed on this story.