ہلدی، نظام ہاضمہ سے جڑے مسائل کا بہترین حل
ہلدی مشرقی کھانوں کو ذائقہ دار بنانے کے علاوہ انسانی صحت کے متعدد مسائل کو حل کرنے کا بھی ضامن ہے۔
ہلدی کو اس کے بیش بہا فوائد کے سبب جنوبی ایشیاء میں زیادہ استعمال کیا جاتا ہے۔
حالی ہی میں ایک تحقیق کی گئی جس کے مطابق ہلدی بدہضمی کے علاج کے لیے ایک طاقتور جزو کے طور پر اُبھری ہے۔
اس میں کرکیومین (curcumin) نامی ایک قدرتی مرکب ہوتا ہے جس میں اینٹی سوزش اور اینٹی مائکروبیل کی خصوصیات موجود ہیں۔
مزید پڑھیں:
خبردار! کچھ سبز غذائیں صحت کے لیے نقصان دہ بھی ہوتی ہیں
’کالا سونا‘ جو آپ کو صحت کی دولت سے مالامال کرسکتا ہے
کچن کے بن بلائے مہمان ’لال بیگ‘ سے کیسے چھٹکارا حاصل کریں
تاہم اس کی افادیت کا موازنہ پیٹ کے اضافی تیزاب کو کم کرنے والی دوا اومیپرازول (omeprazole) سے کیا گیا ہے۔
جرنل بی ایم جے ایویڈنس بیسڈ میڈیسن میں شائع ہونے والی اس تحقیق میں یہ نتیجہ اخذ کیا گیا ہے کہ کرکومین اور اومیپرازول فنکشنل ڈسپیپسیا (functional dyspepsia) کے لیے تقابلی افادیت رکھتے ہیں جس کا کوئی واضح ہم آہنگ اثر نہیں ہوتا۔
محققین نے ڈبل بلائنڈ، پلیسیبو کنٹرولڈ کلینیکل ٹرائل کیا جس میں پیٹ کے مسائل میں مبتلا تقریباً 206 افراد نے حصہ لیا۔ انہیں تین گروپوں میں تقسیم کیا گیا تھا، ہر ایک کو 28 دن کی مدت کے لیے ایک منفرد علاج کا منصوبہ تفویض کیا تھا۔
ایک گروپ کو دن میں چار بار کرکومین کے دو بڑے کیپسول دیے گئے اور اس کے ساتھ ایک ڈمی کیپسول بھی دیا گیا۔
دوسرے گروپ کو اومیپرازول کے روزانہ 20 ملی گرام کیپسول اور توازن برقرار رکھنے کے لئے دو ڈمی کیپسول دیئے گئے۔
جب کہ تیسرے گروپ کو ہلدی اور اومیپرازول دونوں دی گئی تھیں۔
نتائج سے یہ پتہ چلتا کہ ہلدی بدہضمی کو دور میں مدد کرتی ہے، تینوں گروپوں کے مریضوں نے ان علامات میں ایک جیسی بہتری کا سامنا کیا تھا۔
نتائج کے باوجود محققین نے مطالعے کی حدود کو تسلیم کیا۔ ان کے مطابق ہلدی کے فوائد کو چیک کرنے کے لیے مستقبل میں طویل مدتی تجربات کیے جانے چاہئیں۔
محققین کا کہنا تھا کہ ’یہ ملٹی سینٹر رینڈمڈ کنٹرولڈ ٹرائل فنکشنل ڈسپیپسیا کے علاج کے لیے انتہائی قابلِ اعتماد شواہد فراہم کرتا ہے‘۔
خیال رہے کہ اس سے قبل بھی دیگر مطالعات میں ہلدی کو جگر کی چوٹ کا سبب قرار دیا گیا تھا، لہذا ہلدی کو اعتدال میں رہتے ہوئے اور ڈاکٹرز کے مشورے کو مدِ نظر رکھتے ہوئے استعمال کرنے پر زور دیا گیا ہے۔
Comments are closed on this story.